ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2003 |
اكستان |
ابو الکلام آزاد کاجو نقشہ ڈاکٹر اسرار صاحب نے کھینچا ہے اس کے ہوتے ہوئے شیخ الہند کی ان کے حق میں عالی ظرفی اور وسعت قلبی میں ڈاکٹر صاحب کو اپنے حق میں شیخ الہند کے نام لیوا علماء کی رائے ہموار کرنے کے لیے بڑی قوی دلیل نظر آئی کیونکہ ٭ اگر ڈاکٹر اسرار معروف معنی میں دیوبندی نہیں تو ابوالکلام آزاد کا بھی حلقہ دیوبند سے تعلق نہ تھا ۔ ٭ اگر ڈاکٹر اسرار عالم دین نہیں تو ابوالکلام آزاد کو بھی سند فراغت حاصل نہ تھی ۔ ٭ اگر ڈاکٹر اسرار پورے مقلد نہیں تو ابوالکلام آزاد تو تقلید سے کوسوں دور تھے۔ بلکہ خوش فہم ڈاکٹر اسرار صاحب میںتو کچھ زائد خوبیاں ہیں ۔ ٭ ابوالکلام تو آزاد خیال انسان تھے جبکہ ڈاکٹر اسرار صاحب شریعت کے پورے پابند ہیں۔ ٭ ابوالکلام آزاد علماء کی سی وضع قطع نہ رکھتے تھے جبکہ ڈاکٹر اسرار صاحب آج کل کے علماء کی سی وضع قطع رکھتے ہیں۔ ٭ ابوالکلام آزاد سرے سے مقلد نہ تھے جبکہ ڈاکٹر اسرارصاحب نیم مقلد تو ہیں او ر اس دلیل کو مزید تقویت دینے کے لیے شیخ الہند کے پلڑے کے وزن میں مزید اضافہ کرنے کے لیے ان کوچودہویں صدی کا مجدد قرار دیا ۔لکھتے ہیں : ''وہ د ن اور آج کا دن راقم کی پختہ رائے ہے کہ چودہویں صدی ہجری کے مجدد حضرت شیخ الہند تھے اس لیے کہ ان کی سی جامعیت کبرٰی کی حامل کوئی دوسری شخصیت اس پوری صدی میں کم ازکم مجھے نظر نہیں آئی''۔ ''چودہویں صدی ہجری کے بارے میں راقم کا یہ گمان رفتہ رفتہ یقین کے درجے تک پہنچ گیاہے کہ اس کے مجدد اعظم حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی ہیں '' (جماعت شیخ الہند اور تنظیم اسلامی ص١٣ ) حضرت شیخ الہند کے مجدد یا مجددِاعظم ہونا کوئی تعجب کی بات نہیں البتہ ڈاکٹر اسرار صاحب یقینا داد کے قابل ہیں کہ انہوں نے کس صفائی سے اپنے حق میں دلیل کو استوار کرنے کی کوشش کی اور بالآخر دل کی بات زبان پر لے ہی آئے اور یوں گویا ہوئے : ''اب اگر ایک حقیر و ناتواں انسان نے وقت کے اس تقاضے پر لبیک کہتے ہوئے اس کام کا بیڑا اُٹھاہی لیا ہے تو کیا علماء کرام بالخصوص اس حلقے سے وابستہ حضرات جو حضرت شیخ الہند کی عظمت کے پوری طرح قائل ہیں اور مولانا آزاد مرحوم کو بھی کسی نہ کسی درجے میں اپناتے ہیں کاکام یہ ہے کہ اسے طنز و تشنیع کا ہدف بنائیں یا یہ کہ نوجوان اس کا ساتھ دیں اور بزرگ اس کی