ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2003 |
اكستان |
جس کی اصل عقیدت تھی ابن تیمیہ سے '' (جماعت شیخ الہند اور تنظیم اسلامی ص ٦٥) مز ید لکھتے ہیں : ''جو نہ ان (شیخ الہند) کے تلامذہ میں سے تھا نہ حلقہ دیوبند سے تعلق رکھتا تھا بلکہ علماء کے دیگر معروف حلقوں اور سلسلوں میں سے بھی کسی سے منسلک نہ تھا حتی کہ علماء کی سی وضع قطع بھی نہ رکھتا تھا بلکہ بقول خود ''گلیم زہد اور ردائے رندی'' دونوں کو بیک وقت زیب تن کرنے کے جرم کامرتکب تھا۔ (جماعت شیخ الہند اور تنظیم اسلامی ص١٣ ) غرض ڈاکٹراسرارصاحب نے ناجائز حد تک غلوسے کام لیتے ہوئے ابوالکلام آزاد کا یہ حال بتایا کہ نہ وہ عالم تھے ،نہ مقلد تھے اور نہ ہی علماء کی سی وضع قطع رکھتے تھے ہاں سرف قران کے عاشق تھے۔ اب ایسے شخص کے ساتھ حضرت شیخ الہند مولانامحمود الحسن رحمہ اللہ نے ڈاکٹر اسرار صاحب کے الفاظ میں یہ برتائو کیا کہ : ''حضرت شیخ الہند کی وسعت قلبی اور عالی ظرفی کا سب سے بڑا مظہر مولانا آزاد کے معاملے میں ان کا طرزِ عمل ہے بڑے لوگوں کی بڑائی کا ایک اہم پہلو چھوٹوں کی بڑائی کا اقرار اور ان کی ابھرتی ہوئی شخصیتوں کو خواہ مخواہ اپنے لیے ایک چیلنج سمجھ کر انہیں دبانے کی فکر کرنے کی بجائے ان کی سرپرستی اور حوصلہ افزائی کی صورت میں سامنے آتاہے اور اس پہلو سے واقعہ یہ ہے کہ عظمت کا کوہ ہمالیہ معلوم ہوتے ہیں شیخ الہند '' (جماعت شیخ الہند اور تنظیم اسلامی ص٦٤ ) پھر لکھتے ہیں : ''بایں ہمہ اس استاذ العلماء کا یہ قول ان کے شاگردوں کے حلقے میں معروف ہے کہ اس نوجوان (ابوالکلام آزاد ) نے ہمیں اپنا بھولا ہوا سبق یاددلادیا۔اللہ اکبر! ہے کوئی حد اس وسعت قلبی اور عالی ظرفی کی فارجع ا لبصرھل تری من فطور'' (جماعت شیخ الہند اور تنظیم اسلامی ص٦٥) اور مزید لکھتے ہیں : ''بایں ہمہ مولانا ان کے جوہرِ قابل کے قائل بھی ہیں اور انہیںامام الہند مان لینے کی تجویز کے پُر زور مؤید بھی، پھر غور کیجیے کہ ہے کوئی حد اس عالی ظرفی اور وسعت قلبی کی اور ہے اس کی کوئی دوسری مثال اس دور میں ثم ارجع البصرکرتین ینقلب الیک البصر خسئا وھو حسیر'' (جماعت شیخ الہند اور تنظیم اسلامی ص٦٦ )