ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2003 |
اكستان |
|
شان اور جلالت قدر کے بارے میں تھا جن سے اس وقت تک میں اصلاً توان کے ترجمہ قرآن کے حوالے ہی سے واقف تھا اور اس کی بنا پر میرے دل میں ان کے لیے ایک گونہ محبت وعقیدت بھی موجود تھی ۔مزید برآں ان کی ذاتی عظمت، ان کے تقوٰی وتدین ،ان کے اخلاص وللہیت ، ان کا علم وفضل ،ان کے مجاہدانہ کردار ،ان کی عالی ہمتی اورجہاد وحریت اور تحریک استخلاص وطن میں ان کے مقام ومرتبہ کا تو کسی قدر اندازہ تھا لیکن ان کی وسعت نظر ،ان کی عالی ظرفی ،ان کی معاملہ فہمی، ان کی انسان شناسی ،ان کی وسعت قلبی ،اورسب سے بڑھ کر ان کی عاجزی وانکسار ی کا کوئی اندازہ راقم کو نہ تھا ۔یہی وجہ ہے کہ ان کی ذاتی عظمت کے اس پہلو کے یکبارگی انکشاف سے راقم پر ایک مبہوثیت سی طاری ہوگئی ۔۔۔۔۔ وہ دن اور آج کا دن !راقم کی پختہ رائے ہے کہ چودہویں صدی ہجری کے مجدد حضرت شیخ الہند تھے اس لیے کہ ان کی سی جامعیت کبرٰی کی حامل کوئی دوسری شخصیت اس پوری صدی میں کم ازکم مجھے نظر نہیں آتی''۔ (جماعت شیخ الہند اور تنظیم اسلامی ص٤٤٦) ڈاکٹراسرارصاحب کوشیخ الہند کی وسعت ِنظر، ان کی عالی ظرفی ، ان کی معاملہ فہمی ،ان کی انسان شناسی، ان کی وسعت قلب اور سب سے بڑ ھ کر ان کی عاجزی وانکساری کا اندازہ اس بات سے ہوا کہ ابو الکلام آزاد جیسا شخص کہ جس کا حال بقول ڈاکٹر صاحب یہ تھا : ''ایک نوخیز نوجوان جس کی زبان میں تاثیر ،قلم میں زور او ر اس کے سینے میں ہے نغموں کا تلاطم اب تک ،کے مصداق جہاد کا جذبہ اور جوش توبے شک موجود تھا لیکن نہ جبہ وعمامہ ، نہ عباوقبا ،نہ کہیں کے مفتی نہ شیخ الحدیث حتی کہ نہ کہیں کہ سند فراغت ، نہ دستار فضیلت ،ایک قرآن کا عاشق ہونے سے کیاہوتا ہے''۔ (جماعت شیخ الہند اور تنظٰم اسلامی ص٦٥) اور لکھتے ہیں : '' مزید غور فرمائیے ہندوستان تقلید کا گڑھ ہے یہاں اسلام کے معنی ہی حنفیت کے ہیں اور تقلید کے دائرے سے باہر قدم نکالنے کے معنی گویا اسلام سے نکل جانے کے ہیں اوربقول مولانا محمد انور شاہ کاشمیری ''علمی کام ''کا مطلب یہاں صرف یہ رہاہے کہ مسلک حنفی کی فوقیت دوسرے مسلکوں پر ثابت کی جائے اور خود حضرت شیخ الہند پکے حنفی تھے ۔۔۔ دوسری طرف ابو الکلام آزاد حنفیت سے حد درجہ بعید ، تقلید سے کوسوں دور ،ایک آزادخیال انسان