ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2003 |
اكستان |
|
سبحان اللہ ! ڈاکٹر صاحب نے جانشینی کا خوب فلسفہ نکالا ہے۔ اس سے انکار نہیں کہ جانشینی کا ایک طریقہ یہ ہے جوڈاکٹر صاحب نے لکھا ہے لیکن اگر کوئی جانشینی کے سے کام کرے اور اس کا حق ادا کردے تو اسکو بھی جانشین کا لقب دے دیا جاتاہے لیکن ڈاکٹر اسرار صاحب اس کو تاریخ کی ایک بڑی غلطی قرار دیتے ہیں اصل بات یہ ہے کہ ڈاکٹر اسرار صاحب کے نزدیک دین تو دین تاریخ بھی بس وہی ہے جس طرح سے وہ سمجھتے ہیں ۔دین میں وہ تو خدائی فوجداربن کے اترے ہوئے ہیں کہ ملک وملت پر خدائی عذاب کے کوڑے برسواتے رہتے ہیں تاریخ کو بھی وہ اپنا تابع فرمان بناکر رکھنا چاہتے ہیں تاکہ جس طرح سے چاہیں لوگوں کو تاریخ دکھائیں ۔ڈاکٹر اسرار کی یہ دھونس انہی کو مبارک ہو ۔ تحریک آزادی ہند جس پر شیخ الہند کاربند رہے ان کے بعد اس مقصد کے لیے سب سے زیادہ خدمات حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمہ اللہ کی ہیں اور اس اعتبار سے وہ بجا طور پر شیخ الہند کے جانشین کہلانے کے مستحق ہیں اس کے لیے کسی کو ڈاکٹرصاحب سے سند لینے کی ضرورت نہیں ہے کہ جن کانہ علم دین مستند ہے اور نہ علم تاریخ مستند ہے ہم نے ڈاکٹر صاحب کے سامنے آئینہ حقیقت پیش کردیا ہے جس میں وہ اپنے کمالات کا مشاہدہ کرسکتے ہیں۔ جب یہ ثابت ہو چکا کہ شیخ الہند کا مولانا آزاد کو امیر الہند نبانے کا کوئی منصوبہ نہیں تھا تو یہ بات بھی خود بخود واضح ہو گئی کہ مولانا آزاد کو امیر الہند بنانے کے دو سبب جو ڈاکٹر اسرار صاحب نے شیخ الہند کی طرف منسوب کیے ہیں محض خیالی و اختراعی ہیں البتہ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مولانا آزاد کو امیر الہند بنانے کی خود ساختہ تجویز سے ڈاکٹر اسرار کوکیا دلچسپی ہو سکتی ہے؟ اسکا جواب خود دلچسپی سے خالی نہیں ۔اس مسئلہ سے ڈاکٹر اسرارصاحب کی دلچسپی کی وجہ یہ ہے کہ اس کی تحقیق وتفتیش کے دوران ان پر یہ بات منکشف ہوئی کہ شیخ الہند کے نام لیوائوں کے سامنے وہ حضرت شیخ الہند کے اس عمل سے سند پکڑ سکتے ہیں اور ان کو اپنی تائید کی دعوت دے سکتے ہیں اس لیے انہوں نے ایک طرف اپنی جماعت میں شیخ الہند کی شخصیت کو خوب نمایاں کرنے کی کوشش کی اور ان کو مجدد تک کہا اگرچہ وہ اپنے حلقہ میں پہلے ہی نمایاں تھے اور دوسری طرف مولانا ابوالکلام آزاد کو خوب گرانے کی کوشش کی تاکہ شیخ الہند کے نام لیوائوں سے کہہ سکیں کہہ میں تو پھر بھی ان سے بہت اچھا ہوں اور شیخ الہند اتنے وسیع القلب تھے کہ آزاد جیسے رندان قدح خوار کو اپنا خرقہ خلافت دیا اور ان کو امام الہند بنانے کے لیے بے تاب ہوئے تو تم بھی کچھ وسعت قلبی کا مظاہرہ کرو اور کم ازکم میری مخالفت نہ کرو بلکہ میرے ساتھ تعاون کرو۔ ڈاکٹرصاحب کی تحریر ملاحظہ ہو قارئین اس سے یہی نتیجہ اخذ کریں گے جو ہم نے ذکر کیا ۔ ڈاکٹراسرارصاحب لکھتے ہیں : ''اس (یعنی ابوالکلام آزاد کی بیعت امامت کی تجویز ) کی تحقیق وتفتیش کے دوران جو انکشافات مجھ پر ہوئے ان میںسے اہم ترین حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی المعروف بہ شیخ الہند کی عظمت