ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2003 |
اكستان |
|
افسوس ہے کہ بعض زود رائے اشخاص کے مشورہ سے مولانا نے اچانک سفر حجاز کا ارادہ کردیا اور میری کوئی منت وسماجت بھی انہیں سفرسے باز نہ رکھ سکی ،اس کے بعد میں نظربند کردیا گیا ۔۔۔۔'' (جمعیت العلماء ہند دستاویزات مرکزی اجلاس ہائے عام جلد اول ) دوسرے دعوے کے برعکس حقیقت یہ ہے جمعیت العلماء ہند کے دوسرے سالانہ اجلاس کا صدر خود شیخ الہند کو مقر ر کیا گیاتھا اور وہ اگرچہ اپنی بیماری اور کمزوری کے باعث اجلاس میں شریک نہ ہوسکے لیکن آپ کی صدارتی تقریر اجلاس میں پڑھ کر سنائی گئی ۔اس تقریر میں کئی باتیں تھیں لیکن ابوالکلام آزاد کو امام الہند بنانا تو کجا مسئلہ امامت وامارت کے بارے میںایک لفظ بھی مذکور نہیں ہے بلکہ بقول مولانا آزاد جمعیت العلماء کے پاس یہ مسئلہ حضرت شیخ الہند کی وفات کے بعد گیا ہے وہ فرماتے ہیں : ''مگر جب میں نے دیکھا کہ اب یہ مسئلہ منظر عا م پر آچکا ہے اور جمعیت العلماء اس کا آخری اور قطعی فیصلہ کر سکتی ہے تو یہی مناسب معلوم ہوا کہ اسے جمعیت کے حوالے کرکے بالفعل خود سبکدوش ہوجائوں چنانچہ ارکانِ جمعیت کی ایک خاص مجلس شورٰی منعقد دہلی میں یہ مسئلہ پیش ہوکر بالاتفاق منظور ہوا اور اب اس کا آخری فیصلہ (جمعیت العلماء کے )اس (تیسرے سالانہ ) اجلاس کے ہاتھ میں ہے ''۔ لیکن ڈاکٹر اسرار صاحب کو حقائق سے کیا غرض ؟ ان کو دلچسپی اپنے دعووں سے ہے خواہ وہ سرے سے بے بنیاد ہوں کیونکہ ان کو تسلی ہے کہ وہ اپنے عقیدت مندوں کو اپنی لفاظی سے مطمئن کرتے رہیں گے ۔ہاں اپنے دعوے کی تائید میں ان کو جھوٹی سچی جو بات بھی مل جائے اس کو تائید غیبی سمجھ کر قبول کرلیتے ہیں ۔ اس لیے جب جناب سعید الرحمن صاحب علوی نے ڈاکٹر اسرارصاحب کو وہم کا تخلیق کردہ یہ قصہ فراہم کیا کہ : '' شیخ الہند نے شدید علالت کے دوران جمعیت علماء ہند کے دوسرے جلسہ ١٩ تا ٢١ نومبر ١٩٢٠ ء بمقام دہلی کی صدارت بھی فرمائی تھی اور خطبہ صدارت بھی ارشاد فرمایا تھا بقول مولانامحمد میاں بیماری و نقاہت کے سبب تھوڑی دیر بھی اسٹیج پر بیٹھنا دشوار تھا لیکن اجلاس کے اہم ترین ایجنڈا یعنی امیر الہند کے انتخاب کے سلسلے میں ان کے احساسات یہ تھے میری چارپائی اُٹھا کر جلسہ گاہ میںلے جائی جائے اور یہ کام کرلیا جائے پہلا جو شخص بیعت کرے گاوہ میں ہوںگا''۔ ( جماعت شیخ الہند اور تنظیم اسلامی ص٤٥٢)