نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا دو بھوکے اور حریص کبھی سیر نہیں ہوتے۔ ایک علم کا بھوکا اور حریص کہ کبھی اُس سے سیر نہیں ہوتا اور دوسرا دنیا کا بھوکا اور حریص کہ اُس کا پیٹ دنیا سے کبھی بھرتا ہی نہیں ۔
فائدہ: دو - ۲ چیزوں کے حریص ایسے ہیں کہ اُن کی حرص وطمع کبھی ختم نہیں ہوتی۔ ایک دنیا کا حریص کہ جتنی بھی دنیا مل جائے، ھَلْ مِنْ مَّزِیْدٍ کی صدا بلند کرتا ہے اور دوسرے علمِ دین کا حریص کہ جس قدر علم حاصل ہوتا ہے اتنی ہی اُس کی لالچ اور طمع بڑھتی جاتی ہے۔ یہ اِس وجہ سے بھی کہ عالم کو جتنا علم حاصل ہوتا اتنا ہی اُس کو اپنے جہل کا ادراک ہوتا ہے۔ جب کوئی نئی بات اُسے معلوم ہوتی ہے تو اُس کا جہل اُس کے سامنے آجاتا ہے اور وہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ میں اب تک اِس بات کو نہیں جانتا تھا تو نہ جانے کتنی ایسی باتیں ہوں گی جن کو میں نہیں جانتا۔ پس اُس کی طمع بڑھتی رہتی ہے۔
البتّہ یہ دونوں حریص برابر نہیں ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ علمِ دین کا حریص اپنے حرص کی بدولت اللہ کی رضا اور خوشنودی میں بڑھتا جاتا ہے۔ جب کہ دنیا کا حریص اللہ سے سرکشی اور بغاوت میں بڑھتا جاتا ہے۔
چنانچہ دنیاوی چیزوں میں حرص وطمع امرِ قبیح وشنیع ہے۔ جب کہ دینی علوم میں حرص وطمع مطلوب ومحمود ہے۔ خود رسول اللہﷺ کو سکھلایا گیا کہ آپﷺ اپنے پروردگار سے علم میں زیادتی طلب کریں ، قُلْ رَّبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا۔ (القرآن)
اِس لیے طالبِ علم کو چاہیئے کہ علم کے کسی درجہ پر بھی قناعت نہ کرے۔ بلکہ بلند سے بلندتر مقام تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کرتا رہے، ؏
تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کرگیا
ورنہ گلشن میں علاجِ تنگیٔ داماں بھی تھا
٭٭٭٭