تو دیکھا کہ آپ بخار میں مبتلا ہیں ، میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول! آپ کو شدید بخار ہے، آپ نے فرمایا کہ ہاں ! مجھے اتنا زیادہ بخار ہے جتنا دو آدمیوں کو ہوتا ہے، میں نے عرض کیا کہ ایسا اس لئے ہے کہ آپ کے لئے دوہرا اجر ہے، آپ نے فرمایا: ہاں ! ایسا ہی ہے، جس مسلمان کوکوئی بھی مصیبت پہنچتی ہے، کانٹا چبھتا ہے یا اس سے بڑی مصیبت آتی ہے، اللہ اس کے ذریعہ اس کے گناہ اس طرح معاف کرتا اور جھاڑدیتا ہے جس طرح درخت کے پتے جھڑتے ہیں ۔
اس مضمون کی دسیوں احادیث ذخیرۂ حدیث میں موجود ہیں ، اور امام نوویؒ کے بقول:
’’ان میں اہل ایمان کو عظیم بشارت دی گئی ہے اور یہ واضح کیا گیا ہے کہ امراض ومصائب سے دل گرفتہ، رنجور اور شکستہ خاطر نہ ہوا جائے؛ بلکہ یہ یقین رکھا جائے کہ ان سے گناہ معاف ہورہے ہیں ، درجات بلند ہورہے ہیں ، حسنات میں اضافہ ہورہا ہے‘‘۔
سب سے زیادہ آزمائشیں انبیاء پر آتی ہیں ، اور وہ کمالِ صبر کے ساتھ متصف ہوتے ہیں ، اسی لئے ان کے درجات سب سے اعلیٰ اور ان کے حسنات سب سے زیادہ ہوتے ہیں ۔
(۱۵) وضو
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أَلاَ أَدُلُّکُمْ عَلیٰ مَا یَمْحُوْ اللّٰہُ بِہِ الْخَطَایَا وَیَرْفَعُ بِہٖ الدَّرَجَاتِ؟ قَالُوْا: بَلیٰ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! قَالَ: إِسْبَاغُ الْوُضُوْئِ عَلَی الْمَکَارِہِ، وَکَثْرَۃُ الْخُطَا إِلیَ الْمَسَاجِدِ، وَاِنْتِظَارُ الصَّلاَۃِ بَعْدَ الصَّلاَۃِ، فَذٰلِکُمُ الرِّبَاطُ۔
ترجمہ: کیا میں تم کو وہ چیزیں نہ بتادوں جن کے ذریعہ اللہ تعالیٰ گناہ کو معاف فرمادیتا ہے اور درجات کو بلند کردیتا ہے؟ صحابہ نے عرض کیا: