ہوکر واپس ہوگا جیسا اس دن تھا جس دن اس کی ماں نے اس کو جنا تھا۔
حدیث شریف صراحۃً بیان کررہی ہے کہ جس حج میں انسان شہوانی اور فحش باتوں سے احتراز کرتا ہے اور اللہ کی معصیت سے بچتا ہے، تو وہ حج اس کو گناہوں سے بالکل پاک صاف کردیتا ہے۔
عام اعمالِ صالحہ کے بارے میں یہ بات طے ہے کہ ان سے حقوق العباد مطلقاً معاف نہیں ہوتے، رہے حقوق اللہ تو ان میں کبائر صرف توبہ سے معاف ہوتے ہیں ، ہاں صغائر اعمالِ صالحہ سے معاف ہوجاتے ہیں ، جب کہ حج کے بارے میں علماء نے مذکورہ حدیث کی روشنی میں لکھا ہے کہ اس سے حقوق العباد تو معاف نہ ہوں گے؛ لیکن حقوق اللہ معاف ہوجائیں گے، خواہ کبائر ہوں یا صغائر، اس سے حج کی اہمیت کا اندازہ ہوسکتا ہے۔
(۳۲) عمرہ
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ:
اَلْعُمْرَۃُ إِلیَ الْعُمْرَۃِ کَفَّارَۃٌ لِمَا بَیْنَہُمَا، وَالْحَجُّ الْمَبْرُوْرُ لَیْسَ لَہٗ جَزَائٌ إِلاَّ الْجَنَّۃُ۔ (بخاری شریف، مسلم شریف)
ترجمہ: ایک عمرہ اگر ادا کرلیا جائے تو یہ دوسرے عمرہ تک درمیان کے تمام گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے، اور حج مبرور (پاک ومخلصانہ حج) کا بدلہ تو بس جنت ہے۔
دوسری حدیث حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
تَابِعُوْا بَیْنَ الْحَجِّ وَالْعُمْرَۃِ فَإِنَّہُمَا یَنْفِیَانِ الْفَقْرَ