(۲) تقویٰ
تقویٰ کی حیثیت کیا ہے؟ علامہ سید سلیمان ندویؒ کے الفاظ میں :
’’وحی محمدی کی اصطلاح میں یہ دل کی اس کیفیت کا نام ہے جو اللہ کے ہمیشہ حاضر وناظر ہونے کا یقین پیدا کرکے دل میں خیر وشر کی تمیز کی خلش اور خیر کی طرف رغبت اور شر سے نفرت پیدا کردیتی ہے، دوسرے لفظوں میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ وہ ضمیر کے اس احساس کا نام ہے، جس کی بنا پر ہر کام میں خدا کے حکم کے مطابق عمل کرنے کی شدید رغبت اور اس کی مخالفت سے شدید نفرت پیدا ہوتی ہے‘‘۔ (سیرت النبی ۵؍۲۲۱)
تمام اسلامی احکام کی غایت ومقصد اور تمام عبادات کا اصلی منشأ تقویٰ ہے اور کامیابی اور اخروی سرفرازی اہل تقویٰ کے لئے ہے، قرآنِ کریم کے نصوص سے یہ واضح ہوتا ہے کہ تقویٰ گناہوں کی معافی اور مغفرت کا اہم ترین سبب ہے۔ فرمایا گیا:
وَمَنْ یَتَّقِ اللّٰہَ یُکَفِّرْ عَنْہُ سَیِّئَاتِہٖ وَیُعْظِمْ لَہٗ أَجْراً۔ (الطلاق: ۵)
ترجمہ: اور جو اللہ سے ڈرے گا، اللہ اس کے گناہ دور کردے گا اور اس کو بڑا اجر دے گا۔
امام طبریؒ نے اِس آیت کے ذیل میں لکھا ہے کہ جو اللہ سے ڈرے گا، گناہوں سے دوری اختیار کرے گا اور فرائض کو بجالائے گا تو اللہ اس کے گناہوں اور بداعمالیوں کو دور کرکے اُس کے اِس عمل وتقویٰ کی وجہ سے اجر عظیم سے نوازے گا اور جنت کا دائمی قیام عطا فرمائے گا۔ (جامع البیان للطبری ۱۲؍۸۶)
قرآنِ کریم کی دوسری آیت میں فرمایا گیا:
یٰٓأَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا إِنْ تَتَّقُوْا اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّکُمْ فُرْقَاناً وَیُکَفِّرْ عَنْکُمْ سَیِّئٰتِکُمْ وَیَغْفِرْ لَکُمْ، وَاللّٰہُ ذُوْ الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ۔ (الانفال: ۲۹)