وَالذُّنُوْبَ کَمَا یَنْفِی الْکِیْرُ خَبَثَ الْحَدِیْدِ وَالذَّہَبِ وَالْفِضَّۃِ، وَلَیْسَ لِلْحَجَّۃِ الْمَبْرُوْرَۃِ ثَوَابٌ إِلَّا الْجَنَّۃُ۔ (ترمذی، نسائی)
ترجمہ: حج اور عمرہ پے در پے کیا کرو؛ کیوں کہ حج اور عمرہ دونوں فقر ومحتاجی اور گناہوں کو اس طرح دور کردیتے ہیں ، جس طرح لوہار اور سنار کی بھٹی لوہے اور سونے چاندی کا میل کچیل دور کردیتی ہے، اور حج مبرور (مقبول، گناہوں سے پاک، بے ریا، مخلصانہ، بعد کی زندگی میں نمایاں صالح انقلاب پیدا کرنے والا حج) کا ثواب تو بس جنت ہی ہے۔
معلوم ہوا کہ اخلاص کے ساتھ عمرہ اور حج کرنا رحمتِ الٰہی میں غوطہ لگانا اور گناہوں کے گندے اثرات سے اپنے آپ کو پاک وصاف کرنا ہے، اور اس کا نقد فائدہ دنیا میں فقر وافلاس سے نجات اور خوش حالی واطمینان قلب کی دولت میسر آنے کی شکل میں تظاہر ہوتا ہے، اور آخرت میں جنت کا وعدہ تو من جانب اللہ ہے ہی۔
(۳۳) طوافِ بیت اللہ
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
مَنْ طَافَ بِہٰذَا الْبَیْتِ أُسْبُوْعاً فَأَحْصَاہُ، کَانَ کَعِتْقِ رَقَبَۃٍ۔ (ترمذی شریف: کتاب الحج)
ترجمہ: جو اِس بیت اللہ کا سات چکر طواف کرے اور ان کو شمار کرلے اور یاد رکھے تو یہ عمل ایک غلام راہِ خدا میں آزاد کرنے کی طرح (ثواب کا باعث) ہے، یعنی ایک طواف کا ثواب ایک غلام آزاد کرنے کے برابر ہے۔