اور تنگی دونوں میں خرچ کرتے ہیں اور غصہ کو پی جانے والے ہیں اور لوگوں سے درگذر کرنے والے ہیں اور اللہ احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔
آیت کا بیان ہے کہ بے انتہاء وسیع وعریض جنت صرف اُن افراد کے لئے تیار کی گئی ہے، جو خداترس ہوں ، تمام مامورات ومنہیات میں اُس کے پیروکار ہوں ، اللہ کی حدود سے تجاوز نہ کریں ، اللہ کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی نہ کریں ، ایسے لوگ اللہ کی مغفرت اور جنت میں داخلہ اور قیام کے مستحق ہیں ۔
اسی مضمون کو یوں بھی بیان فرمایا گیا ہے کہ:
یٰٓأَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اتَّقُوْا اللّٰہَ وَقُوْلُوْا قَوْلاً سَدِیْداً، یُّصْلِحْ لَکُمْ أَعْمَالَکُمْ وَیَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ وَمَنْ یُطِعِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ فَقَدْ فَازَ فَوْزاً عَظِیْماً۔ (الأحزاب: ۷۰-۷۱)
ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور ٹھیک بات کیا کرو، اللہ تمہارے اعمال درست کردے گا اور تمہارے قصوروں سے درگذر فرمائے گا، جو شخص اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرے اس نے بڑی کامیابی حاصل کی۔
اس آیت میں خدا ترسی اور درست بات کو گناہوں کی مغفرت کا اہم ترین سبب قرار دیا گیا ہے، درست بات سے مراد وہ بات ہے جو عمل سے ظاہر ہو، جس کا مقصود طلب رضائے الٰہی ہو اور جس سے مسلمانوں کی بھلائی مطلوب ہو۔
پوری گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ خدا ترسی اللہ کی مغفرت اور درگذر کا دوسرا اہم باعث ہے۔
(۳) اطاعتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم
قرآنِ کریم کا ارشاد ہے: