انگارے یا چھوٹی چنگاری کی ہے کہ دونوں جلانے اور تباہ کرنے میں برابر ہیں ۔
علماء نے گناہِ کبیرہ کی تعریف میں مختلف اقوال نقل کئے ہیں ، تمام اقوال کی روشنی میں خلاصہ کے طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ:
’’جس گناہ پر قرآن میں کوئی شرعی حد یعنی سزا دنیا میں مقرر کی گئی ہے، یا جس پر لعنت کے الفاظ وارد ہوئے ہیں ، یا جس پر جہنم وغیرہ کی وعید آئی ہے، وہ سب گناہِ کبیرہ ہیں ، اسی طرح ہر وہ گناہ بھی کبیرہ میں داخل ہوگا جس کے مفاسد اور نتائج بد کسی کبیرہ گناہ کے برابر یا اس سے زائد ہوں ، اسی طرح جو گناہِ صغیرہ بھی جرأت وبے باکی کے ساتھ کیا جائے یا جس پر مداومت کی جائے تو وہ بھی کبیرہ میں داخل ہوجاتا ہے‘‘۔ (معارف القرآن ۲؍۳۸۵)
اِس تفصیل سے یہ معلوم ہوا کہ چھوٹے گناہ بڑے گناہوں سے اجتناب کے نتیجے میں معاف ہوجاتے ہیں ، رہے بڑے گناہ تو ان کی معافی کا ذریعہ بارگاہِ الٰہی میں مخلص اور سچی توبہ کے سوا کچھ اور نہیں ہے۔
(۶) ایمان وعمل صالح
قرآنِ کریم کی بہت سی آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ ایمان اور عمل صالح کے نتیجہ میں گناہ معاف ہوتے ہیں اور جنت میں داخلہ کی سعادت ملتی ہے، مثال کے طور پر تین آیات ملاحظہ ہوں ۔ فرمایا گیا:
وَمَنْ یُؤْمِنْ بِاللّٰہِ وَیَعْمَلْ صَالِحاً یُکَفِّرْ عَنْہُ سَیِّئٰتِہٖ وَیُدْخِلْہُ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الأَنْہٰرُ خَالِدِیْنَ فِیْہَآ اَبَداً، ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ۔ (التغابن: ۹)
ترجمہ: جو اللہ پر ایمان لاتا ہے اور نیک عمل کرتا ہے اللہ اس کے گناہ جھاڑ دے گا (معاف کردے گا) اور اسے ایسی جنتوں میں داخل کرے گا،