حفاظت ہوگی۔
یہاں ملحوظ رہے کہ جن گناہوں کی معافی کا ذکر ہے، ان کا تعلق اللہ سے ہے، رہے حقوق العباد تو ان کی معافی اسی طرح ممکن ہے کہ ان کے حقوق ان تک پہنچادئے جائیں یا ان سے معاف کرالئے جائیں ۔
(۴) خوفِ الٰہی
حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:
کَانَ رَجُلٌ مِمَّنْ کَانَ قَبْلَکُمْ یُسِیْئُ الظَّنَّ بِعَمَلِہٖ، فَقَالَ لأَہْلِہٖ: إِذَا أَنَا مُتُّ فَخُذُوْنِیْ فَذَرُوْنِیْ فِیْ الْبَحْرِ فِیْ یَوْمٍ عَاصِفٍ، فَفَعَلُوْا بِہٖ، فَجَمَعَہُ اللّٰہُ ثُمَّ قَالَ: مَا حَمَلَکَ عَلَی الَّذِیْ صَنَعْتَ؟ قَالَ مَا حَمَلَنِیْ عَلَیْہِ اِلاَّ مَخَافَتُکَ، فَغُفِرَ لَہٗ۔
(بخاری شریف)
ترجمہ: سابقہ امتوں میں ایک شخص تھا جسے اپنے اعمال کے سلسلہ میں یہ بدگمانی تھی کہ وہ قبول نہ ہوں گے، چناں چہ اس نے اپنے متعلقین سے کہا کہ جب میری موت آجائے تو مجھے اٹھاکر سمندر کے طوفان کی نذر کردینا، چناں چہ متعلقین نے اس کی موت کے بعد ایسا ہی کیا، اس کے بکھرے ہوئے اجزاء کو جمع فرماکر اللہ عزوجل نے سوال کیا کہ اِس عمل پر تمہیں کس چیز نے آمادہ کیا، اس نے جواب دیا کہ صرف تیرے خوف اور ڈر نے مجھے اس پر آمادہ کیا تھا، اِس پر اللہ نے اس کی مغفرت فرمادی۔
خوفِ خداوندی تمام گناہوں کی مغفرت کا ذریعہ ہوتا ہے، حضرت عباس رضی اللہ عنہ