یہ ہے کہ جب تم سے کوئی قصورہوجائے تو اپنے گناہ پر شرمندہ ہو، پھر ندامت کے ساتھ اللہ سے استغفار کرو اور آئندہ کبھی اس فعل کا ارتکاب نہ کرو، یہی مطلب حضرت عمرؓ، ابن مسعودؓ اور ابن عباسؓ سے بھی نقل کیا گیا ہے۔ ابن جریر نے لکھا ہے کہ حضرت عمرؓ نے توبۂ نصوح کا مطلب یہ بیان فرمایا ہے کہ توبہ کے بعد انسان دوبارہ گناہ تو درکنار، اس کے ارتکاب کا ارادہ تک نہ کرے۔
تفسیر مظہری میں ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے سوال کیا گیا کہ توبہ کیا ہے؟ تو انہوں نے فرمایا، جس میں ۶؍چیزیں جمع ہوں : (۱) اپنے گذشتہ برے عمل پر ندامت (۲) جو فرائض وواجبات اللہ تعالیٰ کے چھوٹے ہیں ان کی قضا (۳) کسی کا مال وغیرہ ظلماً لیا ہو تو اس کی واپسی (۴) کسی کو ہاتھ یا زبان سے ستایا یا اذیت دی ہو تو اس سے معافی (۵) آئندہ اس گناہ کے قریب نہ پھٹکنے کا پختہ عزم (۶) جس طرح اپنے نفس کو اللہ کی نافرمانی کرتے ہوئے دیکھا ہے اب اس کو اطاعت کرتا ہوا دیکھ لے۔
حضرت حسن بصریؒ نے فرمایا ہے کہ توبہ نصوح یہ ہے کہ آدمی اپنے گذشتہ عمل پر نادم ہو اور پھر اس کی طرف نہ لوٹنے کا پختہ عزم رکھتا ہو، کلبیؒ کے بقول آدمی زبان سے استغفار کرے، دل میں نادم ہو اور اپنے اعضاء کو آئندہ اس گناہ سے باز رکھے۔
(۱۳) استغفار
استغفار درحقیقت مغفرت کی طلب اور دعا کا نام ہے۔
اور بقول قرطبی: ’’استغفار وہی معتبر ہے جو دل کی گہرائیوں سے ہو، جو شخص زبان سے استغفار کرے مگر اس کا دل معاصی پر مصر رہے، تو اس کا استغفار نامعتبر ہے‘‘۔
اور حسن بصری کے الفاظ میں : ’’ہمارا استغفار خود استغفار کا محتاج ہے؛ کیوں کہ وہ دل کی گہرائیوں سے نہیں صرف زبان سے ہوتا ہے‘‘۔