ہے اور نیک کام کرتا ہے تو وہ بھی اللہ کی طرف خاص طور پر رجوع کررہا ہے۔
تفسیر طبری میں ہے کہ کچھ مشرک قبول اسلام کے ارادے سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، زمانۂ شرک میں انہوں نے قتل اور زنا وغیرہ جیسے متعدد گناہ کررکھے تھے، چناں چہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ ان گناہوں کا کیا ہوگا؟ اس پر یہ آیات اتریں اور واضح کردیا گیا کہ سچی توبہ کرنے والوں کو اللہ کی مغفرت گھیر لیتی ہے۔
معلوم ہوا کہ ’’امت کے بڑے بڑے عاصی اور خاطی بھی مغفور ہوں گے، بشرطیکہ اپنے معاصی کی تلافی اور تدارک میں لگے رہیں گے، یہ معنی بھی کئے گئے ہیں کہ اللہ ان کے نفس میں بجائے ملکۂ معصیت کے ملکۂ طاعت رکھ دے گا‘‘۔ (تفسیر ماجدی ۳؍۵۲۳)
آخر میں فرمایا گیا کہ اللہ غفور رحیم ہے، یعنی بہ تقاضائے غفوریت وہ گناہوں کو محو کردیتا ہے اور بتقاضائے رحیمیت وہ حسنات کو ثبت فرماتا رہتا ہے۔
اہل ایمان کو مخاطب کرکے فرمایا گیا:
یٰٓأَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا تُوْبُوْآ إِلیَ اللّٰہِ تَوْبَۃً نَصُوْحاً، عَسٰی رَبُّکُمْ أَنْ یُّکَفِّرَ عَنْکُمْ سَیِّئٰتِکُمْ وَیُدْخِلَکُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْأَنْہٰرُ۔ (التحریم: ۸)
ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ سے توبہ کرو خالص توبہ، بعید نہیں کہ اللہ تمہاری برائیاں دور کردے اور تمہیں ایسی جنتوں میں داخل فرمادے جن کے نیچے نہریں رواں ہوں گی۔
ابن ابی حاتم نے زربن حبیش کے واسطے سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں میں نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے توبۂ نصوح کا مطلب پوچھا تو انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی سوال کیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! اس سے مراد