قرآنِ کریم واضح فرماتا ہے:
وَالَّذِیْنَ إِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَۃً أَوْ ظَلَمُوْا أَنْفُسَہُمْ ذَکَرُوْا اللّٰہَ فَاسْتَغْفَرُوْا لِذُنُوْبِہِمْ، وَمَنْ یَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ إِلاَّ اللّٰہُ وَلَمْ یُصِرُّوْا عَلٰی مَا فَعَلُوْا وَہُمْ یَعْلَمُوْنَ۔ (اٰل عمران: ۱۳۵)
ترجمہ: ایسے نیک لوگ اللہ کو بہت پسند ہیں جن کا حال یہ ہے کہ اگر کبھی کوئی فحش کام ان سے سرزد ہوجاتا ہے یا کسی گناہ کا ارتکاب کرکے وہ اپنے اوپر ظلم کر بیٹھتے ہیں ، تو فوراً اللہ انہیں یاد آجاتا ہے اور اس سے وہ قصور کی معافی چاہتے ہیں ؛ کیوں کہ اللہ کے سوا اور کون ہے جو گناہ معاف کرسکتا ہو، اور وہ کبھی دانستہ اپنے کئے ہوئے پر اصرار نہیں کرتے۔
بیان کردیا گیا کہ اللہ کے محبوب بندے وہ ہیں کہ جب ان سے کوئی قصور سرزد ہوجاتا ہے تو فوراً وہ توبہ اور استغفار کرنے لگتے ہیں ، اللہ کی طرف رجوع ہوجاتے ہیں ، گناہوں پر مصر نہیں رہتے، ایسے لوگوں کو اللہ مغفرت اور دخول جنت سے نوازے گا۔
امام ابن کثیر نے اس آیت کے ذیل میں لکھا ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ جب یہ آیت اتری تو ابلیس رونے لگا اور ابلیس نے کہا:
یَا رَبِّ وَعِزَّتِکَ لاَ أَزَالُ أُغْوِیْ عِبَادَکَ مَا دَامَتْ أَرْوَاحُہُمْ فِیْ أَجْسَادِہِمْ، فَقَالَ اللّٰہُ تَعَالیٰ: وَعِزَّتِیْ وَجَلاَلِیْ لاَ أَزَالُ أَغْفِرُ لَہُمْ مَا اسْتَغْفَرُوْنِیْ۔ (مسند احمد)
ترجمہ: اے میرے رب، تیری عزت وجلال کی قسم! جب تک تیرے بندوں کی روحیں ان کے جسموں میں رہیں گی اور وہ زندہ رہیں گے میں انہیں گمراہ کرتا رہوں گا، تو اللہ نے فرمایا: میری عزت وجلال کی قسم!