ڈالا تو میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، اور میں نے عرض کیا کہ اپنا ہاتھ بڑھائیے؛ تاکہ میں آپ سے بیعت کروں ، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا داہنا ہاتھ آگے کردیا؛ لیکن میں نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہیں کیا ہوا کہ تم نے ہاتھ کھینچ لیا؟ میں نے عرض کیا کہ میں ایک شرط لگانا چاہتا ہوں ، وہ یہ کہ میری خطائیں بخش دی جائیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عمرو! کیا تمہیں یہ معلوم نہیں ہے کہ اسلام قبول کرنا سابقہ سبھی گناہوں کو مٹادیتا ہے، ہجرت بھی پہلے گناہوں کو ڈھادیتی ہے اور حج بھی ماضی کے گناہوں کو زائل کردیتا ہے۔
اس حدیث میں اس کی صراحت کردی گئی ہے کہ اسلام سابقہ گناہوں کو مٹادیتا ہے؛ بلکہ اس کے بعض اعمال مثلاً ہجرت وحج کی بھی یہ تاثیر ہے، یہ ملحوظ رہے کہ سابقہ گناہوں کا ازالہ اسلام اور ہجرت وحج سے اسی وقت ہوسکے گا جب کہ نیت صادق اور خالص ہو، نیز اسلام ودیگر اعمال سے حقوق اللہ معاف ہوتے ہیں ، حقوق العباد خصوصاً مالی حقوق اسی وقت معاف ہوتے ہیں ، جب حق داروں سے معاملہ صاف کرلیا جائے۔
گناہوں کے ازالہ کی جو خاصیت اسلام میں ہے اس کا ذکر قرآنِ کریم میں بھی آیا ہے۔ فرمایا گیا:
قُلْ لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوْآ اِنْ یَنْتَہُوْا یُغْفَرْ لَہُمْ مَا قَدْ سَلَفَ، وَإِنْ یَعُوْدُوْا فَقَدْ مَضَتْ سُنَّۃُ الأَوَّلِیْنَ۔ (الانفال: ۳۸)
ترجمہ: اے نبی! اِن کافروں سے کہئے کہ اگر اب یہ باز آجائیں تو جو کچھ پہلے ہوچکا ہے اس سے درگذر کرلیا جائے گا؛ لیکن اگر یہ اُسی پچھلی روش کا اعادہ کریں گے تو گذشتہ قوموں کے ساتھ جو کچھ ہوچکا ہے وہ سب کو معلوم ہے۔