ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2017 |
اكستان |
|
افسوس ہے کہ آج بچیوں، بیویوں اور بہنوں کی حیا باختگی پر صرف خاموشی ہی نہیں ہوتی بلکہ اس برہنگی کو نعوذ باللہ قابلِ فخر سمجھا جاتا ہے مثلاً اسی مذکورہ ٹینس اسٹار کو کھیل کے میدان میں جب کامیابیاں ملنی شروع ہوئیں تو اُس کے ماں باپ نے پریس کے سامنے کھل کر بیٹی کی ''کامیابی'' پر بے حد خوشی کا اظہار کیا تو شریعت میں ایسے ماں باپ جو اپنی بیٹی کی عریانیت پر راضی ہوں وہ لائقِ عزت نہیں بلکہ ''دیوث'' کہلائے جانے کے لائق ہیں جن پر احادیثِ شریفہ میں لعنت کے الفاظ وارد ہوئے ہیں ، یہ خوشی کا نہیں بلکہ ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ مسلمان ماں باپ کی سرپرستی میں بچیاں ننگے پن کا مظاہرہ کریں اور ماں باپ اِس پر ناگواری کے اظہار کے بجائے انہیں برملا شاباشیاں دیں، یہ اسلام کا طریقہ نہیں بلکہ شیطنت کے پرستاروں کا طریقہ ہے جس سے بہرحال بچنا ضروری ہے۔ بے شک بچیوں کو تعلیم دلانے اور انہیں ہنر مند بنانے کی ضرورت ہے لیکن اگر انہیں ایسی تعلیم وتربیت دی جائے جس سے اُن کی نسوانیت اور عفت وعصمت داغدار ہوجائے تو یہ تعلیم نہیں بلکہ پرلے درجہ کی جہالت ہے کوئی بھی صحیح الفطرت انسان کسی بھی حال میں اس عریانیت اور حیا باختگی کی تائید نہیں کرسکتا، اس لیے ہماری ماؤں اور بہنوں کو ہمیشہ خاتونِ جنت سیّدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا کردار پیش نظر رکھنا چاہیے اور ان ہی کی نقل اُتارنے کی کوشش کرنی چاہیے، اسی میں ان کے لیے عزت ہے اور اسی میں انہیں اُخروی نجات کی ضمانت مل سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ہر قسم کی بے حیائی اور اُس کے اسباب سے نفرت کرنے کی توفیق مرحمت فرمائیں، آمین۔ ( ماہنامہ ندائے شاہی انڈیا ، نومبر ٢٠٠٥ئ) مخیرحضرات سے اَپیل جامعہ مدنیہ جدیدمیں بحمد اللہ چار منزلہ دارُالاقامہ (ہوسٹل )کی تعمیر شروع ہو چکی ہے پہلی منزل پر ڈھائی کروڑ روپے کی لاگت کا تخمینہ ہے، مخیر حضرات کو اِس کارِ خیر میں بڑ ھ چڑھ کر حصہ لینے کی دعوت دی جاتی ہے، اللہ تعالیٰ قبول فرمائے۔ (اِدارہ)