پڑھنا- موجب حضور ملائکہ ہے۔)
جب آپ رکوع فرماتے تو اپنے گھُٹنوں پر ہتھیلیاں اس طرح رکھتے جیسے کہ گھٹنوں کو پکڑے ہوئے ہوں، اور ہاتھ تان لیتے، اور پہلوؤں سے جدا رکھتے، پیٹھ پھیلا لیتے اور بلکل سیدھی رکھتے، اور کہتے " سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْم" عادۃً آپ کی تسبیحات کی تعداد دس ۰۱ہوتی تھی، اسی طرح سجدہ میں بھی دس ۰۱مرتبہ "سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی" کہتے، آپ کا عمومی معمول نماز میں اطمینان اور تناسب کا خیال رکھنے کا تھا، رکوع سے سر اٹھاتے ہوئے فرماتے " سَمِعَ اللّٰهُ لِمَنْ حَمِدَہُ "۱ رکوع سے اٹھ کر قومہ میں آپ کا دائمی عمل یہ تھا کہ کمر بلکل سیدھی کر لیتے، یہ عمل دونوں سجدوں کے درمیان بھی تھا، جب قومہ میں پوری طرح کھڑے ہو جاتے تو کہتے " رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْد" کبھی اس پر اضافہ بھی فرماتے، پھر تکبیر اللّٰہ اکبر کہتے ہوئے، سجدے میں جاتے، اور ہاتھوں سے پہلے گھٹنے رکھتے، اور جب اٹھتے تو گھٹنوں سے پہلے دونوں ہاتھ اٹھاتے، اور سجدہ پیشانی اور ناک دونوں پر کرتے، اور پیشانی اور ناک کو اچھی طرح زمین پر رکھتے، اور پہلوؤں سے ہاتھوں کو جدا رکھتے، اور ان کی اس طرح کشادہ کر لیتے کہ بغل کی سفیدی نظر آتی، اور ہاتھ کاندھوں اور کانوں کے سامنے رکھتے سجدہ پورے اطمینان کے ساتھ کرتے، اور پیر کی انگلیوں کو قبلہ رخ رکھتے، اور کہتے " سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلیٰ " کبھی اس پر اضافہ بھی فرماتے، اور نفل نمازوں میں بحالت سجدہ بکثرت دعا کرتے، پھر اللّٰہ اکبر کہتے ہوئے سر اٹھاتے، اور ہاتھوں کو اپنی رانوں پر رکھ لیتے، پھر کہے اللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ، وَارْحَمْنِیْ، وَاجْبُرْنِی، وَاھْدِنِی وَارْزُقْنِیْ " ( الے اللّٰہ
------------------------------
۱ رکوع میں جاتے اور رکوع سے اٹھتے وقت ہاتھ اٹھانے ( رفع یدین) کے بارے میں ائمہ مجتہدین اور فقہائے امت کا اختلاف ہے، جس کی تفصیل کتب فقہ میں ملے گی۔