ﷺــــ سفر و حضر کسی حالت میں ایام بیض (مہینہ کی 13-14-15) کے روزے نہیں چھوڑتے تھے﴿١﴾۔ اور اس کی تاکید فرماتے تھے' اور دنوں کے مقابلہ میں عاشوراء کا خاص اہتمام تھا، آپ ﷺ نے عاشوراء کا روزہ رکھا، تو آپ سے عرض کیا گیا کہ یہ دن تو یہود و نصاریٰ کے ہاں مقدس دن ہے، آپ ﷺ نے فرمایا، اگر آئندہ سال موقع ملا تو ان شاء اللہ نویں کا بھی روزہ رکھیں گے۔
یوم عرفہ کو آپ روزہ نہیں رکھتے تھے، آپ ﷺ کا معمول کئی کئی دن پے درپے روزہ رکھنے، یا صوم دہر کا نہیں تھا، آپ ﷺ سے صحیح روایت میں ثابت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا "اللہ کو صوم داؤد سب سے زیادہ پسند ہے، وہ ایک دن روزہ رکھتے تھے، ایک دن چھوڑتے تھے﴿۲﴾ ؔ۔ آپ ﷺ کی یہ بھی عادت شریفہ تھی کہ گھر تشریف لے جاتے، اور دریافت فرماتے کچھ کھانے کو ہے؟ اگر جواب نفی میں ملتا تو فرماتے تو اچھا آج میں روزہ سے ہوں۔
وفات تک آپ ﷺ کا معمول رہا کہ رمضان کے آخرہ عشرہ میں اعتکاف فرماتے تھے، ایک مرتبہ وہ رہ گیا تو شوال میں اس کی قضا کی، ہر سال دس 10 دن کا اعتکاف فرمایا کرتے تھے، لیکن جس سال وفات ہوئی اس سال بیس 20 دن کا اعتکاف فرمایا، اور حضرت جبرئیل علیہ السلام ہر سال آپ ﷺ سے ایک مرتبہ قرآن شریف کا دورکرتے تھے، لیکن سال وفات دو مرتبہ دور کیا۔﴿۳﴾
حج و عمرہ کے بارے میں طریقہ ؔ و اسوہٴ نبوی
اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے کہ ہجرت کے بعد رسول اللہ ﷺ نے
------------------------------
1۔ نسائی شریف، 2۔ مسلم شریف، کتاب الصیام، 3۔تلخیص از زاد المعاد ص158-176 مع اضافات، 4۔ حج کی حکمتوں و اسرار کے لئے مولف کی کتاب" ارکان اربعہ کا باب"حج" اور احکام تفصیلات کے لئے "زاد المعاد)