کُلُہ للہ۔ (سورۃ انفال:۳۹)
نہ رہے، اور دین سب خدا ہی کا ہوجائے۔
علامہ ابن قیم "زاد المعاد" میں لکھتے ہیں:
"جہاد چونکہ ایوان اسلام کا بلند کنگرہ ہے، اور جنت میں مجاہدین کا اسی طرح بلند مقام ہے، جس طرح دنیا میں بھی ان کو رفعت و بلندی حاصل ہے، اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کے ذروہ علیا (۱) پر فائز اور اس کے تمام انواع و اقسام پر محیط تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے راہ خدا میں اپنے قلب و جگر، دعوت و تبلیغ اور سیف و سنان سے جہاد کا حق ادا کر دکھایا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے تمام اوقات قلبی، لسانی اور جسمانی جہاد کے لئے وقف تھے، اسی لئے دنیا میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سب سے بلند و بالاتر اور خدا کے ہاں سب سے زیادہ مقرب و محبوب تھے اور کیونکہ (خدا کے دشمنوں سے) خارجی جہاد، داخلی جہاد (راہ حق میں اپنے نفس سے جہاد کی ) ایک شاخ ہے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ "مہاجر وہ ہے جو اللہ تعالٰی کی منع کی ہوئی چیزوں کو چھوڑ دے" اس لئے نفس کے ساتھ جہاد خارجی دشمن سے جہاد پر مقدم اور اس کی اساس ہے۔"
جہاد کے اقسام اور ان کی مشروعیت کی ترتیب
جہاد کی چار (۴) قسمیں ہیں۔ (۱) نفس سے جہاد (۲) شیطان سے جہاد (۳) کفار سے جہاد (۴) منافقین سے جہاد، اور چاروں قسم کے جہاد کے الگ الگ درجات و مراتب بھی ہیں، حدیث میں آیا ہے :
من مات و لم یغز، و لم یحدث نفسہ بالغز و مات علیٰ شعبۃ
جو اس حال میں مر جائے کہ اس نے جہاد نہ کیا ہو، اور نہ جہاد کی تمنا و ارادہ
------------------------------
۱۔ سب سے بلند چوٹی۔