ظُلِمُوا ۚ وَإِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ ﴿الحج:٣٩﴾
کی جاتی ہے، ان کو اجازت ہے کہ وہ بھی لڑیں کیونکہ ان پر ظلم ہو رہا ہے اور خدا (ان کی مدد کرے گا) وہ یقیناً ان کی مدد پر قادر ہے۔
پھر ان لوگوں سے جنگ کرنا فرض کر دیا گیا جو جنگ کریں، اور جو جنگ نہ کریں ان سے جنگ کرنا فرض نہیں قرار دیا گیا۔ ارشاد فرمایا :
وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ ﴿البقرۃ:١٩٠﴾
اور جو لوگ تم سے لڑتےہیں، تم بھی خد کی راہ میں ان سے لڑو۔
اس کے بعد تمام مشرکین سے "قتال" فرض قرار دے دیا گیا، اور ارشاد ہوا :
وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّىٰ لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ كُلُّهُ لِلَّهِ ۚ ﴿الانفال:٣٩﴾
اور ان لوگوں سے لڑتے رہو، یہاں تک کہ فتنہ (یعنی کفر کا فساد) باقی نہ رہے، اور دین سب خدا ہی کا ہو جائے۔
جہاد کی فضیلت اور اس کے آداب و منافع
صحیح روایت میں آتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا "اگر مجھے اپنی امت پر مشقت کا خیال نہ ہوتا تو میں کسی لشکر سے پیچھے نہ رہتا اور میری یہ تمنا ہے کہ میں خدا کے راستہ میں شہید کیا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں، پھر شہید کیا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں، پھر شہید کیا جاؤں۔"
اور فرمایا کہ : "اللہ کے راستہ میں جہاد کرنے والے کی مثال ایسی ہے، جیسے کوئی