معمول تھا، طِوالِ مفصّل ۱ کی مختلف سورتیں اس میں تلاوت فرماتے، سفر کی حالت میں فجر میں سورہ " اِذَازُلْزِلَتْ" اور معوذتین " قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلقِ" اور "قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ" کا پڑھنا بھی آپ سے ثابت ہے، جمعہ کے دن نماز فجر میں "آلم السجدہ" اور سورۂ دہر پوری پڑھتے، اور بڑے مجمعوں میں جیسے کہ عید اور جمعہ میں سورۂ "ق" اور " اِقّتَرَبَتِ السَّاعَۃُ" اور " سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ" اور "ھَلْ اَتَاکَ حَدِیثُ الْغَاشِیَۃِ " پڑھنے کا معمول تھا۔
ظہر میں کبھی کبھی قرأت طویل فرماتے، عصر کی نماز کی قرأت طویل ظہر کی نماز کی قرأت کی آدھی مقدار کی ہوتی، اور اگر ظہر مختصر ہوتی، تو عصر بھی اسی کے برابر ہوتی، مغرب کی نماز میں قرأت طویل بھی فرمائی، اور مختصر بھی، زیادہ تر اس میں قِصار مفصَّل ۲ پڑھتے تھے، عشاء کی نماز میں درمیانی سورتیں پڑھا کرتے تھے، اور اسی کو پسند فرماتے تھے، حضرت معاذ بن جبل رضی اللّٰہ عنہ نے عشاء میں جب سورہ بقرہ پڑھی تو آپ نے نکیر فرمائی، اور فرمایا کہ اے معاذ کیا تم لوگوں کو فتنہ میں مبتلا کرو گے ؟!
جمعہ میں سورہ جمعہ اور سورہ منافقون پوری پڑھتے، یا سورہ "سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ" اور سورہ "ھَلْ اَتَاکَ" پڑھتے، جمعہ و عیدین کے ماسوا کسی نماز کے لئے آپ کوئی سورہ متعین نہیں فرماتے تھے کہ جس کے علاوہ کوئی اور سورہ نہ پڑھیں، فجر کی نماز میں پہلی رکعت دوسری رکعت کے مقابلہ میں طویل فرماتے، اور ہر نماز میں پہلی رکعت کچھ طویل ہوتی، فجر کی نماز میں دوسری تمام نمازوں سے زیادہ طویل آپ کی قرأت ہوتی، اس لئے کہ قرآن شریف میں آتا ہے "اِنَّ قُرْاٰنَ الْفَجْرِ کَانَ مَشْھُوْدًا ہ"( الاسراء ۔۷۸) ( صبح کے وقت قرآن کا
------------------------------
۱ طوال مفصل۔ سورۂ حجرات سے سورۂ بروج تک کی سورتیں۔
۲ "لَمْ یَکُنْ" سے سورۂ "والنَّاسِ" تک کی سورتیں ۔