صرف اتنا ہی نہیں بلکہ یہ انبیاء کرام۠ کی دعوت، ان کی جدوجہد، اور ان کی مقدس کوششوں کی ایک طرح کی تحقیر و ناقدری، اور قرآن ( جو آخری اور ابدی کتاب ہدایت ہے) کی ابدیت میں شک و شبہ کے مترادف ہے، اور اس ایمان و اعتقاد میں بے یقینی کے ہم معنیٰ کہ انبیائے کرام کا طریق کار ہی بہترین طریق کار ہے، جس کو اللّٰہ نے پسند فرمایا ہے، اور اس کے ساتھ خدا کی تائید و توفیق، کامیابی و کامرانی، قبولیت و رحمت کا ایسا فیصلہ اور معاملہ ہے، جو کسی بھی دوسرے اصلاحی طریق کے لئے نہیں۔
بدعت، اس کی مضرتین اور کامل و مکمل اور لازوال شریعت کے ساتھ اس کا تضاد
کسی ایسی چیز کو جس کو اللّٰہ و رسول نے دین میں شامل نہیں کیا، اور اس کا حکم نہیں دیا دین میں شامل کر لینا، اس کا جزء بنا دینا، اس کو ثواب اور تقرب الی اللّٰہ کے لئے کرنا، اور اس کے خود ساختہ شرائط و آداب کی اسی طرح پابندی کرنا جس طرح ایک حکم شرعی کی پابندی کی جاتی ہے، بدعت ہے، بدعت درحقیقت دین الٰہی کے اندر شریعت انسانی کی تشکیل، اور "ریاست اندرون ریاست" ہے، اس شریعت کی الگ فقہ ہے، اور مستقل فرایض و واجبات اور سُنن و مستحبات، جو بعض اوقات شریعت الٰہی کے متوازی، اور بعض اوقات تعداد اور اہمیت میں اس سے بڑھ جاتے ہیں، بدعت اس حقیقت کو نظر انداز کرتی ہے کہ شریعت مکمل ہو چکی، جس کا تعین ہونا تھا، اس کا تعین ہو گیا، اور جس کو فرض و واجب بننا تھا، وہ فرض و واجب بن چکا، دین کی ٹکسال بند کر دی گئ، اب جو نیا سکّہ اس کی طرف منسوب کیا جائیگا، وہ جعلی ہو گا، امام مالکؒ نے خوب فرمایا :۔