لَعَلَّھُمْ یَرْجِعُوْنَ ه ( سورۂ زخرف -۲۸) تاکہ وہ ( خدا کی طرف ) رجوع کریں۔
اور یہی تمام مصلحین، مجاہدین اور اللّٰہ کی طرف دعوت دینے والوں کا عالمی و دائمی شعار ہے۔
شرک جلی کی اہمیت کم کرنا اور اس سے صرف نظر کرنا جائز نہیں
یہ ہر گز جائز نہیں کہ نئے اصلاحی و دعوتی تقاضوں اور زمانہ کی نئی ضرورتوں کے اثر سے " شرک جلی" کی اہمیت کو کم کر دیا جائے اور دعوت و تبلیغ کے بنیادی اصولوں میں اس کو ضمنی حیثیت دی جائے یا " سیاسی اطاعت" اور انسانوں کے وضع کئے ہوئے کسی نظام و قانوں کے قبول کرنے کو اور غیر اللّٰہ کی عبادت کو ایک درجہ میں رکھا جائے، اور دونوں پر ایک ہی حکم لگایا جائے، یا یہ سمجھ لیا جائے کہ شرک، جاہلیت قدیم کی ( جب انسانی ذہن اور علم و تمدن دور طفولیت میں تھے) بیماری اور خرابی، اور جہالت کی ایک بھدّی اور بھونڈی شکل تھی، جو انسان غیر ترقی یافتہ اور غیر متمدن دور ہی میں اختیار کر سکتا ہے، اب اس کا دور گزر گیا، انسان بہت ترقی کر چکا ہے، اب اس کا ذہنی انحراف نئی نئی ترقی یافتہ شکلوں ہی میں ظاہر ہوتا ہے، یہ دعویٰ اور طرز فکر مشاہدہ اور تجربہ اور واقعات کے بھی خلاف ہے، شرک جلی بلکہ کھلی ہوئی بت پرستی آج بھی علانیہ طور پر موجود ہے، اور قوموں کی قومیں، پورے پورے ملک حتی کہ بہت سے مسلمان شرک جلی میں مبتلا ہیں، اور قرآن کا یہ اعلان آج بھی صادق ہے کہ
"وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُم بِاللَّـهِ إِلَّا وَهُم مُّشْرِكُونَ" ( سورۂ یوسف۔۱۰۶) ( اور ان میں سے اکثروں کا حال یہ ہے کہ اللّٰہ پر یقین لاتے اور اس کے ساتھ شریک بھی ٹھیرائے جاتے ہیں)۔