کافروں کے درمیان وجہ امتیاز ہے، خدا تعالیٰ کا ارشاد ہے:۔
وَاَقِیْمُواالصَّلٰوۃَ وَ لَا تَکُوْنُوْا مِنَ الْمُشْرِکِیْن ہۙ ( سورۂ الروم - ۳۱)
اور نماز پڑھتے رہو، اور مشرکوں میں نہ ہونا۔
امام بخاریؒ اپنی جامع صحیح میں بروایت حضرت جابر رضی اللّٰہ عنہ نبی اکرم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا :۔
بَیْنَ الْعَبْدِ وَ بَیْنَ الْکُفْرِ تَرْکُ الصَّلَاۃِ
بندہ اور کفر کے درمیان ترک نماز ہے
اور ترمذی شریف کی ایک روایت میں ہے :۔
بین الکفر و الایمان ترک الصلاۃ ۔
کفر اور ایمان کے درمیان ( حدّ فاضل) ترک نماز ہی ہے ۔
نماز نجات کی شرط اور ایمان کی محافظ ہے، اور اس کو اللّٰہ تعالیٰ نے ہدایت و تقویٰ کی بنیادی شرط کے طور پر بیان کیا ہے ۱، نماز ہر آزاد اور غلام، امیر اور غریب ، بیمار اور تندرست، مسافر اور مقیم پر ہمیشہ کے لئے اور ہر حال میں فرض ہے، کسی بالغ انسان کو کسی حال میں اس سے مستثنیٰ نہیں کیا جا سکتا، بخلاف روزہ اور حج اور زکوٰۃ کے جو مختلف شرائط و صفات کے ساتھ وابستہ ہیں، اور ان کے متعین اور محدود اوقات ہیں، نماز میدانِ جنگ میں بھی فرض ہے، اور صلٰوۃ خوف کے نام سے موسوم ہے، یہ ایک ایسا فریضہ ہے، جو کسی نبی اور رسول سے بھی ساقط نہیں ہوتا، چہ جائیکہ کسی ولی اور عارف و مجاہد سے، اللّٰہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتَّىٰ يَأْتِيَكَ الْيَقِينُ ہ۲ ( سورۂ الحجر - ۹۹)
اور اپنے پروردگار کی عبادت کرتے رہئیے یہاں تک کہ آپ کو امر یقین پیش آ جائے۔
------------------------------
۱ سورۃ البقرہ کی آیت ۱-۳، اور سورۃ الاعلیٰ کی آیت ۱۴-۱۵ ملا حظہ فرمائیے۔ ۲ تمام مفسرین اور علماء کا اجماع ہے کہ یہاں یقین سے مراد موت ہے ، عاقل بالغ سے فرائض کا ساقط نہ ہونا جیسا کہ عقائد کے ذیل میں ہم ذکر کر چکے ہیں، علم عقائد کا معروف مسئلہ ہے۔