انہیں کے متعلق قیامت میں سب سے پہلے سوال ہو گا اور ان کا ترک اور ان سے تغافل موجب وبال و نکال ہے۔ ایک جگہ ان لوگوں سے سوال و جواب کے موقعہ پر جو جہنم کے عذاب کے مستحق ہوئے ارشاد ہے :
مَا سَلَكَكُمْ فِي سَقَرَ ﴿٤٢﴾ قَالُوا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّينَ ﴿٤٣﴾ وَلَمْ نَكُ نُطْعِمُ الْمِسْكِينَ ﴿٤٤﴾ وَكُنَّا نَخُوضُ مَعَ الْخَائِضِينَ ﴿٤٥﴾ وَكُنَّا نُكَذِّبُ بِيَوْمِ الدِّينِ ﴿٤٦﴾ حَتَّىٰ أَتَانَا الْيَقِينُ ﴿سورۃ المدثر:٤٧﴾
کہ تم دوزخ میں کیوں پڑے، وہ جواب دیں گے کہ ہم نماز نہیں پڑھتے تھے، اور نہ فقیروں کو کھانا کھلاتے تھے، اور اہل باطل کے ساتھ مل کر (حق سے) انکار کرتے تھے اور روز جزا کو جھٹلاتے تھے، یہاں تک کہ ہمیں موت آ گئی۔
دوسری جگہ کفار کے تذکرہ میں ارشاد ہے :
فَلَا صَدَّقَ وَلَا صَلَّىٰ ﴿٣١﴾ وَلَـٰكِن كَذَّبَ وَتَوَلَّىٰ ﴿٣٢﴾ ثُمَّ ذَهَبَ إِلَىٰ أَهْلِهِ يَتَمَطَّىٰ ﴿سورۃ القیامۃ:٣٣﴾
تو اس (ناعاقبت اندیش) نے نہ تو (کلام خدا کی) تصدیق کی، نہ نماز پڑھی، بلکہ جھٹلایا اور منہ پھیر لیا، پھر اپنے گھر والوں کے پاس اکڑتا ہوا چل دیا۔
ان آیات سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ عبادات و ارکان دین، دین کے پورے نظام میں بنیادی و مرکزی حیثیت رکھتے ہیں، جن پر مؤاخذہ و محاسبہ ہو گا، باقی چیزیں (حکومت الٰہیہ کا قیام اور انسانی تمدن کو خیر و فلاح کی بنیادوں پر تعمیر کرنا) وسائل کی حیثیت رکھتی ہیں اور دین میں ان کی درجہ دوسرا ہے۔
ان عبادات میں اولین اور اہم رکن نماز ہے، یہ دین کا ستون ہے اور مسلمانوں اور