تمام آسمانی شریعتوں نے ان کو مشروع قرار دیا ہے، اور تمام آسمانی مذاہب نے اپنے اپنے دور میں ان کی دعوت دی ہے، اور شریعت اسلامی نے سب سے زیادہ کامل و مکمل شکل میں ان کو پیش کیا ہے، اور رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم کو ان کا ایسا اہتمام، اور ان سے ایسا عشق و شغف تھا، جو احاطۂ بیان سے باہر ہے، بیسیوں آیتیں، اور سیکڑوں احادیث ان کے بارے میں ترغیب و تحریض، اور ان کے فضائل میں وارد ہوئی ہیں، ان میں مسابقت و تنافس اور ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی ترغیب دی گئی ہے، ان کی کثرت کرنے والوں، اور ان کا اہتمام رکھنے والوں کا مقام مدح میں ذکر کیا گیا ہے، اور ان سے غفلت برتنے والوں کی مذمت کی گئی ہے۔۱
قرآن کریم جہاد و حکومت کو وسیلہ اور " اقامۃ صلوٰۃ" کو مقصد و نتیجہ بتاتا ہے، قرآن کا ارشاد ہے:۔
الَّذِينَ إِن مَّكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنكَرِ ۗ وَلِلَّـهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ ہ ( سورۂ الحج - ۴۱)
یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم ان کو ملک میں دسترس دیں تو نماز پڑھیں، اور زکوٰۃ ادا کریں، اور نیک کام کرنے کا حکم دیں اور بُرے کاموں سے منع کریں، اور سب کاموں میں انجام خدا ہی کے اختیار میں ہے۔
قرآن پر ایک نظر ڈالنے ہی سے معلوم ہوتا ہے کہ تعلق مع اللّٰہ، عبودیت و بندگی، اور عبادات معیّنہ ( ارکان اربعہ: نماؔز، زکوٰؔۃ، روزؔہ ، حجؔ) بندہ سے اس طرح مطلوب و مقصود ہیں کہ
------------------------------
۱ ملاحظہ فرمائیے کتب حدیث، ابواب عبادات، اور آیات سورۂ سجدہ -۱۶ سورۂ فرقان -۶۴ سورۂ آل عمران - ۱۷ سورۂ احزاب - ۳۵-۴۲ سورۂ کہف -۲۸-سورۂ انعام -۵۲