یہ کتاب طالبین و مسترشدین کے لئے ایک دینی اتالیق اور مربی کا کام دے، اور بڑی حد تک اسلامی کتب خانہ کی نمائندگی اور قائم مقامی کرے، انھوں نے اس میں عقائد، مسائل، تزکیہ نفس، باطنی تربیت، اصلاح اخلاق، اور مرتبہ احسان، اور اس کے حصول کے طریقوں پر بحث کی ہے، فضائل کی احادیث، وعدوں اور وعیدوں کی آیات و روایت، موثر حکیمانہ مواعظ، اور قلب میں سوز و گداز پیدا کرنے والی حکایات کو کتاب میں جگہ دی، اس کا نتیجہ ہے کہ یہ کتاب ایمان، عمل صالح، اور تصفیہ باطن کے لئے مہمیز کا کام کرتی ہے، روحانی امراض کی نشان دہی کرتی، اور اس کا مناسب علاج تجویز کرتی ہے، اس میں شبہ نہیں کہ کتاب میں باریک بیں ناقدین کو ان کے فلسفیانہ مطلالعہ کے (اگرچہ وہ خود اس کے بڑے ناقدرے رہے ہیں) اثرات نظر آجاتے ہیں، اور کہیں کہیں ایسی احادیث سے استدلال بھی ہے، جو محدثین ناقدین کے یہاں ضعیف شمار ہوتی ہیں، بعض اور قابلِ تنقید باتیں بھی تلاش کرنے والوں کو مل سکتی ہیں، لیکن اس کے باوجود سب اہلِ نظر اور اہل انصاف کتاب کی تاثیر و افادیت کے قائل و معترف ہیں، حتی کہ علّامہ ابن الجوزی ١؎، اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ۲؎ جیسے ناقدین نے بھی کتاب کی اہمیت و قدر و قیمت کا کھلے طریقے پر اعتراف کیا، یہ ایک تاریخی حقیقت ہے، کہ اس کتاب کو جو قبول عام حاصل ہوا، اور اس کے ساتھ دینی و علمی حلقوں میں جو اہتمام برتا گیا، اور جس جوش و خروش سے اس کا استقبال کیا گیا، اور جو شہرت و مرجعیت و اعتماد اس کو حاصل ہوا، وہ صحاح ستہ اور چند دینی کتابوں کو مستثنیٰ کرکے کسی کتاب کے بارے میں نہیں سنا گیا، دنیائے اسلام کے اطراف و اکناف میں نسل در نسل، اور عہد بعہد
------------------------------
١؎ ملاحظہ ہو علامہ ابن جوزیؒ کی المنتظم ج9 ص 169۔170 طبع دائرۃ المعارف حیدر آباد ۲؎ دیکھئے فتاوی ابن تیمیہؒ ج2 ص 194