ہم مرتبہ اور ہم طبقہ فلاسفہ کو نہ خدائے علیم و خبیر کا درجہ دے، نہ خطا و لغزش سے محفوظ انبیائے معصومین کا، مسلمانوں کو ایسے نابغۂ روزگار مفکروں، یا پابند نصوص مجتہدوں ، یقین آفریں اور علمی و فکری حیثیت سے ایسی قدآور شخصیتوں کی ضرورت تھی، جو فلسفہ پر کامیابی کے ساتھ عمل جرّاحی بھی کرسکیں، اور اس کا نعم البدل بھی مہیا کرسکیں، وہ فلسفہ اور فلسفیوں کے آراء و نظریات سے انکھیں ملا کر بات کریں، قرآن پر اس طرح ان کا ایمان ہو جس طرح وہ نازل ہوا، خدا تعالیٰ کی صفات و افعال کو بغیر کسی تحریف و تاویل کے ویسا ہی مانتے ہوں جیسا وہ خود ان کے بارے میں فرماتا ہے۔ اور ان حقائق کی وہ ایسی تفسیر کرتے ہوں، جس کو عقل و منطق تسلیم کرے، اور علم و دلیل جس کے مؤیّد ہوں، یہ دانش کدۂ قرآنی، اور دبستان علوم نبویؐ سے فیض پانے والے علمائے حق تھے، جو فلسفہ اور اس کے بھاری بھر کم اصطلاحات کی غلامی اور مرعوبیت سے ہر طرح آزاد تھے، وہ عقائد میں کتاب اللّٰہ اور سنت متواترہ کے پابند تھے، اور خدا تعالیٰ پر انہیں صفات کے ساتھ ایمان و عقیدہ رکھتے تھے، جو اس نے اپنی کتاب میں بیان فرمائی ہیں، ایک حدیث میں علمائے حق کی جو تعریف آئی ہے، وہ ان پر پورے طور صادق تھی ۔
ینفون عن ھذا الدّین تحریف الغالین، و انتحال المبطلین، و تاویل الجاھلین ۱۔
وہ غالی لوگوں کی تحریف، باطل پرستوں کے غلط انتساب، اور جاہلوں کی تاویلات سے دین کی حفاظت کرتے ہیں۔
ان علمائے اسلام سے کوئی دور خالی نہیں رہا، ان نمایاں شخصیتوں میں آٹھویں صدی ہجری
------------------------------
۱ بروایت بیہقی، حدیث کے الفاظ یوں ہیں:۔ "یحمل ھذا العلم من کل خلف عدولہ ینفون عنہ تحریف الغالین۔ الخ "