کے عالم جلیل شیخ الاسلام حافظ ابن تیمیہ حرّانیؒ ( ۸۲۷ھ) ہیں، جیسا کہ اکابر علماء کی شہادت ہے، اور ان کی کتابیں بھی اس پر شاہد عدل ہیں، وہ ایک طرف ان تمام حقائق پر جو رسول اللّٰہ صلے اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم لے کر آئے ہیں، اور کتاب اللّٰہ جن پر مشتمل ہے، مکمل اور غیر متزلزل ایمان رکھتے تھے، قرن اول اور سلف صالحین کے عقائد پر ان کو پورا اطمینان اور شرح صدر حاصل تھا، دوسری طرف وہ ان تمام کلامی مباحث کے دریا کے شناور تھے، جو امتِ اسلامیہ میں ان سے پہلے زیر بحث رہے، انہوں نے یونانی فلسفہ و منطق اور ان مکاتب فکر کا گہرا، وسیع و ناقدانہ مطالعہ کیا تھا، جو دنیائے اسلام پر صدیوں اثر انداز رہ چکے تھے، وہ ان فلسفیانہ دعاوی اور اصول کے بے باک، آزاد اور طاقت ور ناقد تھے، جو اقلیدس کے اصول موضوعہ کی طرح بے چوں و چرا تسلیم کئے جانے لگے تھے، ان کو خدا نے ایک ایسا شاگرد رشید اور جانشین بھی عطا فرمایا جو انھیں کے نقش قدم پر چلتے رہے، ان کے مطالب کی تفصیل و توضیح، ان کے کام کی تکمیل اور نشر و اشاعت کو انھوں نے زندگی کا مقصد بنا لیا، وہ علامہ ابن قیم جوزیہ ( ۱۹۷ھ) ہیں۔
ان کے بعد ان خصوصیات و خدمات میں اگر کسی کا نام پورے اعتماد سے لیا جا سکتا ہے، تو وہ حکیم الاسلام حضرت شاہ ولی اللّٰہ دہلویؒ (۶۷۱۱ھ ) مصنف "حجۃ اللّٰہ البالغہ" ہیں، جو ایک طرف سلف صالحین کے عقائد کے ترجمان و شارح، قرآن کے دقیق النظر مفسّر، علم حدیث کے ماہر خصوصی، فقہ و اصول فقہ کے متبّحر عالم اور اسرار و مقاصدِ شریعت کے راز داں تھے، اور ان کا علم و تفقُّہ اجتہاد مطلق کی سرحدوں کو چھو رہا تھا،۱
------------------------------
۱ نواب سید صدیق حسن خان لکھتے ہیں کہ " اگر وہ دور اول میں ہوتے تو بڑے مجتہدین میں شمار ہوتے" شاہ صاحب کے تفصیلی حالات کےلئے ملاحظہ ہو " نزہۃ الخواطر" مولانا حکیم سید عبدالحی حسنیؒ، جلد ۶۔