سے منزہ قرار دینا ضروری ہے، اور یہ "لوازم فاسدہ" اکثر ان کے ذہن کی اختراع اور ان کے مفروضات تھے۔ اس لیے بہت سے اسماء و افعال اور صفاتِ الہی کے اثبات سے صرف اس لیے انھوں نے راہِ فرار اختیار کی کہ اس سے "حدوث" لازم آتا ہے۔ یا اس سے خدا کے لیے "جسمیت" لازم آتی ہے اور "ذاتِ قدیم" کو جن امور سے منزہ ہونا چاہیے وہ ثابت ہوتے ہیں۔ یہ ساری نکتہ آفرینیاں اس بنیاد پر تھیں کہ وہ خدائے تعالیٰ کو انسان اور اپنے محدود تجربات پر قیاس کر رہے تھے ۔ کیونکہ بہر حال یہ بات تصور میں نہیں آتی، اور نہ اس کا کبھی تجربہ ہوا ہے کہ یہ صفات اپنے "لوازم " کے بغیر پائی جائیں۔ وہ بھول گئے کہ یہ صفاتِ الٰہی ہیں۔ جن کا وجود ان " لوازم " کا محتاج اور پابند نہیں ہے۔ ان میں سے بعض لوگوں نے صفات کی بالکلیہ نفی کا بھی رجحان ظاہر کیا، اگر چہ ان میں کسی قدر بہتر وہ لوگ ہیں جو صفات کی تاویل کرتے ہیں یا ان کی اس طرح شرح و تفسیر کرتےہیں، جو نفی و تعطیل تک پہنچادیتی ہیں اور " صفات" کی حکمت ہی فوت ہوجاتی ہے۔
ذوق و رجحان کے فرق کے ساتھ ( جو قدرتی ہے ) بہت سے لوگوں نے یہ راہ اختیار کی اور علم کلام بنتا گیا اور اس کے مباحث پھیلتے گئے ۔ لیکن مسلمانوں کو ایک ایسے متکلم کی ضرورت تھی جو کتاب و سنت اور سلف کے عقائد پر اپنے عقائد و افکار کی بنیاد رکھے ، انھیں کو اصل و اساس قرار دے، اور فلسفہ و علم کلام کے مباحث پر ایک قابلِ بحث و اختلافِ موضوع کی حیثیت سے غور کرے ، جس کے کچھ اجزاء قبول بھی کئے جاسکتے ہیں اور کچھ اجزاء رد بھی کئے جاسکتے ہیں اور اس کا آزادانہ علمی محاکمہ کرے (جس میں مرعوبیت کا شائبہ نہ ہو ) یونانی فلاسفہ اور ان کے مقلدوں اور شاگردوں کے نتائج غور و فکر کا صرف وہ ح صلی اللہ علیہ وسلم قبول کرے جو صحیح دلیل سے ثابت اور علم و تحقیق کے میزان میں پورا اترتا ہو، وہ ارسطو اور اس کے