مسلمہ اور ثابت شدہ علمی حقائق سمجھنے لگتے ہیں، جن میں ان کے نزدیک بحث و تحقيق کی گنجائش اور جواز باقی نہیں رہتا، اور جن پر بحث کرنے والا (ان کے نزدیک) یا تو نادان ہو گا یا متعصب اور ہٹ دھرم.
جہاں تک ان قوموں کا تعلق ہے، جو زمانہ قدیم سے اپنے دینی سرمایہ کو کھو بیٹھی اور ہدایت و نور سے یکسر محروم ہوگئیں ہیں، ان کا یہ طرز عمل قابل تعجب بات نہیں، تعجب تو ان "مسلمان دانشوروں" پر ہے، جن اللہ تعالٰی نے نبوت محمدی صلى الله على صاحبها وسلم کی نعمت، اور اس کتاب الہی کی دولت سے سرفراز فرمایا، جس کا وصف امتیازی یہ ہے:
"لا يأتيه الباطل من بين يديه ولا من خلفه تنزيل من حكيم حميد" (سوره حم السجدة 42)
اس پر غلطی کا دخل نہ آگے سے ہوسکتا ہے نہ پیچھے سے (یہ) دانا (اور) خوبیوں والے (خدا) کی اتاری ہوئی ہے.
قرون متأخرہ میں عالم اسلام کے بہت سے علمی و درسی حلقوں نے (خاص طور پر جوایران کے خوشہ چیں تھے) اس فلسفہ کو من و عن تسلیم کیا، اور اس پر اس طرح سنجیدہ و عمیق بحثیں شروع کردیں، جیسے وہ مسلمات و حقائق، بدیہات اور عملی تجربات کا مجموعہ ہے، یونانی فلاسفہ کے بہت سے خیالات و اوہام، اور مفروضات کو جو محض قوت متخیلہ، یا زور کلام کا نتیجہ تھے، صحیح تسلیم کیا، اور ان میں سے بہت سوں نے (کبھی اسلام سے محبت و تعلق کی بناء پر، اور کبھی اپنی کمزوری سے) قرآنی آیات کو اس کا تابع بنایا، اور ان کی دور از کار اور بے معنی تاویلیں کیں، اور ان کی اس طرح تفسیر کی کہ وہ یونانی الہیاتی فلسفہ کے "ثابت شدہ حقائق" اور "مسلمات" سے ہم آہنگ ہو جائیں، اس سلسلہ میں اکثر ان سے غلطی اور لغزش ان کے اس اصول سے ہوئی کہ "واجب الوجود" کو "لوازم فاسدہ"