مزید برآں یہ کہ وہ قدیم، بوسیدہ اور رگ و پے میں سرایت کی ہوئی شرک و بت پرستی کا شکار، اور ان خرافات و بے بنیاد روایات کے کُشتہ و زخم خوردہ تھے، جو ان کے فلسفہ شعر و شاعری، ادب اور مذہب میں رچی بسی، اور ان کے جسم و جان میں پیوست تھیں، افلاک اور عقول کے بارے میں وہ ایک مشرکانہ فلسفہ رکھتے تھے، جو نسلاً بعد نسل ان کو وراثت میں ملتا چلا آ رہا تھا، اسی کا نتیجہ تھا کہ ان کا الٰہیاتی فلسفہ ، فلسفہ اور یونانی علم الاصمام (GREECE MYTHOLOGY) کا ایک آمیزہ تھا، انھوں نے اپنے نظریات اور خیالات و اوہام کے بڑے شاندار اور مرعوب کُن نام رکھ رکھے تھے " اور ان کو فلسفہ و فن کی حسین و جمیل پوشاک پہنا رکھی تھی۔
ہندوستان کے علاوہ ( جو اپنے خاص فلسفہ ویدانت) اور دیومالا میں مشہور رہا ہے، عام طور پر مختلف قوموں کے متکلمین و فلاسفہ نے انھیں کی تقلید کی، اور ریاضیات و علم ہندسہ اور بعض طبیعاتی علوم میں ان کی مہارت و فن کاری کا لوہا مان کر ان پر آنکھ بند کر کے ایمان لے آئے، اور ان کی تحقیقات کو مسلّمہ حقائق کا درجہ دے دیا، ہمیشہ سے انسانوں کی یہ کمزوری رہی ہے ( جیسا کہ امام غزالیؒ نے اپنی گراں قدر تصنیف "تہافُت الفلاسفہ" اور علّامہ ابن خلدون نے اپنے عظیم مقدمہ میں ذکر کیا ہے) کہ جب وہ کسی ایک شعبہ میں کسی فرد یا جماعت کا لوہا مان لیتے، اور اس کے امتیاز و تفوق کو تسلیم کر لیتے ہیں، تو دوسرے تمام شعبوں میں بھی اس کی امامت کے قائل ہوجاتے ہیں، اور اس کے نظریات و نتائج بحث و تحقیق کو ایسے
------------------------------
(باقی ۳۶ کا ) تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو مصنف کی کتاب "مذہب و تمدن" ۰۱ تا ۴۱ نیز الٰہیات میں عقل کی درماندگی اور حکمائے یونان کی اس میدان میں بوالعجبیوں کو معلوم کرنے کے لئے ملاحظہ ہو مصنف کی کتاب "تاریخ دعوت و عزیمت " جلد چہارم ۲۹۱ تا ۰۰۲