زمانہ قدیم سے ذہانت و ذکاوت، طباعی، فلسفیانہ نکتہ آفرینی، شعر و شاعری اور علم و فن میں مشہور رہے ہیں، لیکن مشکل یہ ہے کہ علم الٰہیات میں ان میں سے کسی چیز کو مطلق دخل نہیں، اس لئے ان کی تمام کوششیں رائگاں اور "کوہ کندن و کاہ برآوردن" کے مرادف ثابت ہوئیں اور وہ اس بحر ظلمات میں اسی طرح غوبے کھاتے رہے، جس کی تصویر کشی قرآن پاک کی اس آیت سے بہت نہیں ہو سکتی :
فِي بَحْرٍ لُّجِّيٍّ يَغْشَاهُ مَوْجٌ مِّن فَوْقِهِ مَوْجٌ مِّن فَوْقِهِ سَحَابٌ ۚ ظُلُمَاتٌ بَعْضُهَا فَوْقَ بَعْضٍ إِذَا أَخْرَجَ يَدَهُ لَمْ يَكَدْ يَرَاهَا ۗ وَمَن لَّمْ يَجْعَلِ اللَّهُ لَهُ نُورًا فَمَا لَهُ مِن نُّورٍ ﴿سورۃ النور:٤٠﴾
گہرے سمندر کی اندھیری اور سمندر کو لہروں (کی چادر) نے ڈھانک رکھا ہو، ایک لہر کے اوپر دوسری لہر، اور لہروں کے اوپر بادل چھایا ہوا، گویا تاریکیاں ہی تاریکیاں ہوں، ایک تاریکی پر دوسری تاریکی، آدمی اگر خود اپنا ہاتھ نکالے تو امید نہیں کہ سجھائی دے اور جس کسی کے لئے اللہ ہی نے اجالا نہیں کیا تو پھر اس کے لئے روشنی میں کیا ح صلی اللہ علیہ وسلم ہو سکتا ہے۔
ان کے پاس نہ ہدایت کی کوئی روشنی تھی، نہ علم و عرفان کی کوئی کرن، نہ محسوسات، سابقہ تجربات، ابتدائی مقدمات اور بنیادی معلومات کا کوئی سہارا جس کے ذریعہ مجہول تک پہونچنا ممکن ہوتا ہے۔ (۱)
------------------------------
۱۔ عقل و استدلال کو کسی نتیجہ تک پہونچنے اور کسی چیز کو ثابت کرنے کے لئے کس طرح ابتدائی معلومات اور محسوسات کی ضرورت ہوتی ہے، اور وہ ان کی مدد سے "مجہول" سے "معلوم" تک پہونچتی ہے، اس کی (باقی صفحہ ۶۴ پر)۔