دوسرا گروہ وہ ہے، جس نے اپنی ذہانت اور علم پر کلُّی اعتماد و انحصار کیا، عقل کی لگام آزاد چھوڑ دی، اور قیاس کے گھوڑے دوڑائے، اللّٰہ تعالیٰ کی ذات و صفات کے مطالعہ اور تحقیق میں اسطرح بے باکانہ تحلیل و تجزیہ سے کام لیا، جس طرح کسی کیمیاوی تجربہ گاہ ( لیبارٹری) میں طبیعاتی قوت، یا کسی نباتاتی وجود کے ساتھ کیا جاتا ہے، اور اللّٰہ تعالیٰ کے بارے میں "وہ ایسا ہے" "وہ ایسا نہیں ہے" کی مقدار" وہ ایسا ہے" کے مقابلہ میں بہت زیادہ تھی، اور یہ واقعہ ہے کہ جب انسان یقین و روشنی سے محروم ہو۔ تو اس کے لئے " نفی" " اثبات" سے زیادہ آسان ہوتی ہے، اسی لئے فلاسفۂ یونان کے الٰہیات میں نتائج بحث و تحقیق اکثر منفی ہیں، اور کوئی دین، کوئی تہذیب، کوئی نظامِ حیات بھی "نفی" پر قائم نہیں ہوتا، یہ انبیائے کرام کی شان نہیں ہے جو " ماوراء حسّ و عقل" حقائق کے بارے میں۱ "دیدۂ بینا اور گوش شنوا" رکھتے ہیں۔
اسی لئے حکمائے یونان کا الٰہیاتی فلسفہ، متضاد خیالات و نظریات ، اور قیاسات و تخمینات کا ایک جنگل ہے، جس میں آدمی گم ہو جائے، یا ایک بھول بھلیّاں ہیں، جس میں داخل ہونے کے بعد نکلنے کا راستہ نہیں ملتا، اس گروہ میں پیش پیش وہ یونانی فلاسفہ ہیں، جو
------------------------------
۱ یاد رہے کہ "ماوراء عقل" اور"مخالف عقل" میں بڑا فرق ہے، جو چیز " ماوراء عقل" ہے، بالکل ضروری نہیں کہ مخالف عقل بھی ہو، ماوراء عقل کا مطلب صرف یہ ہے کہ وہ عقل کے حدود سے باہر ہے، اور تنہا عقل اس کے علم و ثبوت کے لئے کافی نہیں ہے، بقول حضرت مجدد الف ثانیؒ "مخالفت دوسری چیز ہے اور نارسائی دوسری چیز، اس لئے کہ مخالفت پہونچنے کے بعد متصور ہو سکتی ہے" مکتوب ۳۲ ۳۔