السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلِيَكُونَ مِنَ الْمُوقِنِينَ ه ( سورۂ الانعام۔۷۵)
اور زمین کی بادشاہت کے جلوے دکھاتے تھے، تاکہ وہ خوب یقین کرنے والوں میں ہوجائیں۔
اسی جماعت انبیاء کے ایک فرد ( حضرت ابراہیمؑ) نے اپنی قوم کو جب وہ اُن سے خدا تعالیٰ کی ذات و صفات کے بارے میں ( بغیر کسی علم اور بغیر کسی نور کے) کٹ حجتی کر رہی تھی، جواب دیا :۔
أَتُحَاجُّونِّي فِي اللَّـهِ وَقَدْ هَدَانِ ۚ ( سورۂ الانعام ۔ ۸۰)
کیا تم مجھ سے اللّٰہ کے بارے میں ردّوکد کرتے ہو، حالانکہ اس نے مجھے راہ حق دکھا دی ہے۔
اس طبقہ کے افراد نے انبیائے کرام کا دامن تھام کر اور ان کے عطا کئے ہوئے بنیادی حقائق و عقائد کی روشنی میں کائنات و انفس میں غورو تفکر، اور آیات الٰہی اور صحیفۂ آسمانی میں تدبُّر کا سفر شروع کیا، اور اس کی مدد سے عمل صالح ، تزکیۂ نفس، اور تہذیب اخلاق کا کام صحیح خطوط پر انجام دیا، انھوں نے عقل سے کام لینا چھوڑا نہیں، صرف یہ کیا کہ اس کو صحیح راستہ پر ڈال کر اس سے وہ خدمت لی، جو اس کے کرنے کا کام، اور اس کا اصلی فائدہ تھا، انہوں نے دیکھا کہ اس کے بعد انبیاءؑ کی تعلیمات اور ان کے نتائج غورو فکر میں مکمل ہم آہنگی ہے، اور وہ ایک دوسرے پر مہر تصدیق ثبت کرتے ہیں، اور ان کے ایمان و یقین میں اضافہ پر اضافہ ہوتا جاتا ہے:۔
وَمَا زَادَهُمْ إِلَّا إِيمَانًا وَتَسْلِيمًا
اور اس سے ان کے ایمان و اطاعت میں اضافہ و ترقی ہی ہوئی۔