یہ علم اس لئے سب سے برتر اور افضل قرار دیا گیا کہ اسی پر انسانوں کی سعادت و فلاح موقوف ہے، اور یہی عقائد و اعمال، اخلاق و تمدن کی بنیاد ہے، اسی کے ذریعہ انسان اپنی حقیقت سے واقف ہوتا، کائنات کی پہیلی بوجھتا، اور زندگی کا راز معلوم کرتا ہے، اسی سے اس عالم میں اپنی حیثیت کا تعین کرتا، اور اسی کی بنیاد پر اپنے ہم جنسوں سے اپنے تعلقات استوار کرتا ہے، اپنے مسلک زندگی کے بارے میں فیصلہ، اور پورے اعتماد، بصیرت اور وضاحت کے ساتھ اپنے مقاصد کا تعین کرتا ہے۔
اسی لئے ہر قوم و نسل، اور ہر دور و طبقہ میں اس علم کو سب سے بلند درجہ دیا گیا، اور ہر سنجیدہ مخلص، با مقصد اور انجام کی فکر رکھنے والے انسان نے اس علم سے گہری دلچسپی اور شغف کا اظہار کیا، کیونکہ اس علم سے ناواقفیت ( خواہ شعوری و ارادی ہو، یا غیر شعوری و غیر ارادی) ایسی محرومی کا سبب ہے، جس کے بعد کوئی محرومی نہیں، اور ایسی ہلاکت و بربادی کا باعث جس سے بڑھ کر کوئی ہلاکت و بربادی نہیں۔
اس سلسلہ میں زمانۂ ماضی میں عام طور پر دو۲ طبقے رہے ہیں:۔
۱۔ ایک طبقہ وہ ہے، جس نے اس علم کے حصول کے لئے خدا کے ان پیغمبروں پر اعتماد کیا جن کو اللّٰہ نے نبوت و رسالت سے سرفراز فرمایا، اپنی صحیح معرفت عطا کی، اور اپنی ذات و صفات ، اور اپنی مرضیات سے واقفیت کے لئے اپنے اور اپنی مخلوق کے درمیان واسطہ بنایا، اور ان کو یقین کی ایسی دولت بخشی جس سے زیادہ کا تصور ممکن نہیں، و "نور" عطا کیا، جس سے زیادہ بصیرت افروز اور قابل اعتماد کوئی روشنی نہیں ہو سکتی:۔
وَكَذَٰلِكَ نُرِي إِبْرَاهِيمَ مَلَكُوتَ اور اس طرح ہم ابراہیم کو آسمانوں