حق کے معاملہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں برابر تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس، علم و معرفت، حیا و شرم، اور صبر و امانت داری کی مجلس تھی، نہ اس میں آوازیں بلند ہوتی تھیں، نہ کسی کے عیوب بیان کئے جاتے تھے، نہ کسی کی عزت و ناموس پر حملہ ہوتا تھا، نہ کمزوریوں کی تشہیر کی جاتی تھی، سب ایک دوسرے کے مساوی تھے، اور صرف تقویٰ کے لحاظ سے ان کو ایک دوسرے پر فضیلت حاصل ہوتی تھی، اس میں لوگ بڑوں کا احترام اور چھوٹوں کے ساتھ رحم دلی اور شفقت کا معاملہ کرتے تھے، حاجت مندوں کو اپنے اوپر ترجیح دیتے تھے، مسافر اور نووارد کی حفاظت کرتے، اور اس کا خیال رکھتے تھے" وہ کہتے ہیں:-
"آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمہ وقت کشادہ رو، اور انبساط و بشاشت کے ساتھ رہتے تھے، بہت نرم اخلاق اور نرم پہلو تھے، ۱؎ نہ سخت طبیعت کے تھے، نہ سخت بات کہنے کے عادی، نہ چلّا کر بولنے والے، نہ عامیانہ اور مبتذل بات کرنے والے، نہ کسی کو عیب لگانے والے، نہ تنگ دل، بخیل، جو بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند نہ ہوتی اس سے تغافل فرماتے، (یعنی اس کو نظر انداز کر دیتے اور گرفت نہ فرماتے) اور صراحتاََ اس سے مایوس بھی نہ فرماتے، اور اس کا جواب بھی نہ دیتے تین۳ باتوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کو بالکل بچا رکھا تھا، ایک جھگڑا، دوسرے تکبُّر، اور تیسرے غیر ضروری اور لا یعنی کام، لوگوں کو بھی تین۳ باتوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بچا رکھا تھا، نہ کسی کی برائی کرتے تھے، نہ اس کو عیب لگاتے تھے، اور نہ اس کی کمزوریوں اور پوشیدہ باتوں کے پیچھے پڑتے تھے، اور صرف وہ کلام فرماتے تھے، جس پر ثواب کی امید ہوتی تھی، جب
------------------------------
۱؎ یعنی جلد مہربان ہو جانے والے، بہت لطف و کرم والےم اور بہت آسانی سے درگذر کرنے والے تھے، یہ بھی آتا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی سے نزاع نہیں فرماتے تھے، ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد سکون و وقار و خشوع و خضوع ہے۔