اور اخلاق سے ان کو محروم فرمائیں، اپنے اصحاب کے حالات کی برابر خبر رکھتے، لوگوں سے لوگوں کے معاملات کے بارے میں دریافت کرتے رہتے۔
اچھی بات کی اچھائی بیان فرماتے اور اس کو قوت پہونچاتے، برُی بات کی برائی کرتے، اور اس کو کمزور کرتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معاملہ معتدل اور یکساں تھا، اس میں تغیر و تبدل نہیں ہوتا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی بات سے غفلت نہ فرماتے تھے، اس ڈر سے کہ کہیں دوسرے لوگ بھی غافل نہ ہونے لگیں، اور اکتا جائیں، ہر حال اور موقع کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس حال کے مطابق ضروری سامان تھا، نہ حق کے معاملہ میں کوتاہی فرماتے، نہ حد سے آگے بڑھتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب جو لوگ رہتے تھے، وہ سب سے اچھے اور منتخب ہوتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ میں سب سے زیادہ افضل وہ تھا، جس کی خیر خواہی اور اخلاق عام ہو، سب سے زیادہ قدرو منزلت اس کی تھی، جو غم خواری و ہمدردی، اور دوسروں کی مددو معاونت میں سب سےآگے ہو، خدا کا ذکر کرتے ہوئے کھڑے ہوتے، اور خدا کا ذکر کرتے ہوئے بیٹھتے، جب کہیں تشریف لے جاتے تو جہاں مجلس ختم ہوتی اسی جگہ تشریف رکھتے، اور اس کا حکم بھی فرماتے، اپنے حاضرینِ مجلس اور ہم نشینوں میں ہر شخص کو (اپنی توجہ اور التفات) پورا حصہ دیتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا شریک مجلس یہ سمجھتا کہ اس سے بڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ میں کوئی اور نہیں ہے، اگر کوئی شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی عرض سے بٹھالیتا، یا کسی ضرورت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کرتا تو نہایت صبر و سکون سے اس کی پوری بات سنتے، یہاں تک کہ وہ خود اپنی بات پوری کر کرکے رخصت ہوتا، اگر کوئی شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرتا، اور کچھ مدد چاہتا تو بلا اس کی ضرورت پوری کئے، واپس نہ فرماتے، یا کم از کم نرم شیریں لہجہ میں جواب دیتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حسن اخلاق تمام لوگوں کے لئے وسیع اور عام تھا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے حق میں باپ ہوگئے تھے، تمام لوگ