گفتگو کرتے تھے، تو شرکاء مجلس ادب سے اس طرح سر جھکا لیتے تھے کہ معلوم ہوتا تھا کہ ان سب کے سروں پر چڑیاں بیٹھی ہوئی ہیں،١ جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم خاموش ہوتے تب یہ لوگ بات کرتے، آپ کے سامنے کبھی نزاع نہ کرتے، اگر آپ کی مجلس میں کوئی شخص گفتگو کرتا تو بقیہ سب لوگ خاموشی سے سنتے، یہاں تک کہ وہ اپنی بات ختم کرلیتا، آپ کے سامنے ہر شخص کی گفتگو کا وہی درجہ ہوتا، جو ان کے پہلے آدمی کا ہوتا ( کہ پورے اطمینان سے اپنی بات کہنے کا موقعہ ملتا، اور اسی قدر دانی اور اطمینان سے اسے سنا جاتا) جس بات سے سب لوگ ہنستے اس پر آپ بھی ہنستے، جس سے سب تعجب کا اظہار کرتے آپ بھی تعجب فرماتے، مسافر اور پردیسی کی بدتمیزی اور ہر طرح کے سوال کو صبر وتحمل کے ساتھ سنتے، یہاں تک کہ آپ کے اصحاب کرام ایسے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرلیتے ( تاکہ آپ پر کوئی بار نہ ہو) آپ فرماتے تھے کہ" تم کسی حاجت مند کو پاؤ تو اسکی مدد کرو" آپ مدح و تعریف اسی شخص کی قبول فرماتے، جو حد اعتدال میں رہتا، کسی کی گفتگو کے دوران کلام نہ فرماتے، اور اس کی بات کبھی نہ کاٹتے، ہاں اگر وہ حد سے بڑھنے لگتا تو اسکو منع فرمادیتے، یا مجلس سے اٹھ کر اسکی بات قطع فرما دیتے.
آپ سب سے زیادہ فراخ دل، کشادہ قلب، راست گفتار، نرم طبیعت، اور معاشرت و معاملات میں نہایت درجہ کریم تھے، جو پہلی بار آپ کو دیکھتا وہ مرعوب ہوجاتا، آپ کی صحبت میں رہتا، اور جان پہچان ہوتی تو آپ کا فریفتہ اور دلدادہ ہوجاتا، آپ کا ذکر خیر کرنے والا کہتا ہے کہ نہ آپ سے قبل میں نے آپ جیسا کوئی شخص دیکھا نہ آپ کے بعد، صلی اللہ علی نبينا وسلم٢
------------------------------
١) یعنی بے حس وحرکت کہ کہیں جنبش سے چڑیاں نہ اڑجائیں،
٢) اقتباس از"شمائل ترمذی" منقول از" نبی رحمت"