اور نہ جہاد کا خیال دل میں آیا ہو، وہ نفاق کے ایک حصہ کے ساتھ مرے گا۔" ۱؎
جہاد_ جب اپنے شرائط، احکام و آداب کے ساتھ ہو__ بڑے خیرو برکت کا سر چشمہ، دنیا کے لئے سعادت، اور پوری انسانیت کے لئے رحمت کا ذریعہ ہے،۲؎ اور جب سے اس جہاد اسلامی کا سلسلہ منقطع اور موقوف ہوگیا، اور اس کی جگہ قوم و وطن کے نام پر مادی اور سیاسی جنگوں اور ان داخلی انقلابات نے لے لی، جن کا مقصد نہ رضائے الہٰی کا حصول تھا، نہ اعلاء کلمتہ اللہ، اور نہ انسانیت کی جاہلیت، طاغوت اور نفس پرستی کے شکنجہ سے نکالنا اور ابدی سعادتوں سے ہم کنار کرنا، اسی وقت سے پوری دنیا جہاد کے فوائد و برکات سے محروم ہو گئی، مسلمان سارء دنیا میں رسوا ہو گئے، اور اپنی قدرو قیمت اور اپنا وزن کھو بیٹھے،۳؎ اور یہ نبوی پیشن گوئی حرف بحرف صحیح ثابت ہوئی:-
"قریب ہے کہ قومیں تم پر اس طرح ٹوٹ پڑیں، جس طرح اپنے پیالہ پر کھانے والے ٹوٹتے ہیں، صحابہ کرام رضہ نے عرض کیا ، یا رسول اللہ صہ کیا ہماری تعداد اس وقت کم ہوگی ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں ! تمہاری تعداد بڑی ہوگی، لیکن تم سیلاب کی جھاگ کی طرح جھاگ بن جاوگے، اور خدا تعالٰے تمہارے دشمن کے دل سے تمہاری ہیبت اور خوف نکال دے گا، اور تمہارے
------------------------------
۱؎ ابو داود شریف ۔ ۲؎ ملا حظہ کیجئے"صراط مستقیم" کے دوسری باب کی چوتھی فصل کا افادہ نمبر ۵(۹۵-۹۶) نسخہ مطبوعہ مکتبہ سلفیہ، لاہور۔ ۳؎ اس کا ایک نمونہ بیروت کا وہ المیہ ہے جو اگست و ستمبر سنہ ۱۹۸۲ میں پیش آیا، اور جس میں یہودیوں اور لبنانی عیسائیوں (فلانجسٹ) کے ہاتھوں فلسطینیوں کا قتل عام، آبروریزی اور وہ سفّاکی درندگی کے نمونے سامنے آئے جس سے آدم خور قبائل، اور خونخوار جانور بھی شرمائیں، اور اس کے مقابل میں عالم اسلام کی بے بسی، اور عرب حکومتوں کی بے حمیّتی و بے حسی ہے" إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَعِبْرَةً لِّأُولِي الْأَبْصَارِ"
(آل عمران - ۱۳)