شامل ہیں (۱)، لیکن اس قلیل تعداد نے خون آدم کو جس ارزانی سے اور انسانیت کو جس بے عزتی اور بے آبروئی سے بچایا اس کا مکمل جائزہ لینا مشکل بلکہ ناممکن ہے، اس کے نتیجہ میں جزیرۃ العرب کے اطراف میں اس قدر اطمینان کی فضا قائم ہوگئی کہ ایک مسافر خاتون حیرہ (۲) سے چلتی اور کعبہ کا طواف کر کے واپس جاتی، اور اللہ کے سوا اس کو کسی کا ڈر نہ ہوتا (۳)، اسی کے ساتھ ساتھ جہاد اسلام کی نشر و اشاعت اور خدا کے بندوں کو بندوں کی بندگی سے نکال کر خدائے وحدہ لا شریک کی بندگی، مذاہب و ادیان کے ظلم و انحراف سے اسلام کے سایہ عدل و انصاف اور دنیائے دنی کی تنگ نائیوں اور نفس پرستی کے قفس تنگ سے نکال کر آفاق و انفس کی لامحدود وسعتوں اور فضائے ناپیدا کنار میں منتقل کرنے کا ذریعہ بنتا ہے۔
حدیث میں آتا ہے کہ "جہاد میری بعثت سے لے کر اس وقت تک قائم رہے گا کہ جب میری امت کا آخری گروہ دجال سے جہاد کرے گا۔ جہاد کو ظالموں کا ظلم ختم کر سکتا ہے نہ عادلوں کا عدل (۴)" اور ایک حدیث میں آتا ہے کہ جو خدا تعالٰی سے اس حال میں ملے گا کہ اس پر جہاد کا کوئی اثر نہ ہو گا، اس کی خدا تعالٰی سے ملاقات اس حال میں ہو گی کہ (اس کا جسم) داغدار ہوگا (۵)"۔ ایک حدیث میں ہے کہ "جو اس حال میں مر جائے کہ اس نہ جہاد نہ کیا ہو،
------------------------------
۱۔ مولانا قاضی محمد سلیمان منصور پوری نے "رحمۃ للعالمین" میں یہی تعداد لکھی ہے، جو گہرے مطالعہ اور ذمہ دارانہ تحقیق پر مبنی ہے۔
۲۔ حیرہ بادیۃ العراق کا ایک مشہور شہر ہے، مقصد یہ ہے کہ جزیرۃ العرب کے ایک دور دراز گوشہ سے چل کر اطمینان کے ساتھ جاتی۔
۳۔ جامع کبیر از علامہ سیوطی، بواسطہ دیلمی و بروایت حضرت انس رضی اللہ عنہ۔
۴۔ جامع کبیر از علامہ سیوطی رحمہ اللہ بواسطہ دیلمی و بروایت حضرت انس رضی اللہ عنہ۔
۵۔ ترمذی و ابو داؤد شریف۔