مسلمانوں (اعراب) کا سا ہوگا، خدا کے وہ احکام جو تمام مومنوں سے متعلق ہیں، ان سے بھی متعلق رہیں گے، اور مال غنیمت اور مال فئی میں صرف اسی وقت ان کا حصہ ہوگا، جب وہ مسلمانوں کے ساتھ مل کر جہاد کریں گے۔ اور اگر وہ اس کے لئے بھی تیار نہ ہوں، تو ان سے "جزیہ" کا مطالبہ کرو، اگر اس کے لئے تیار ہو جائیں تو بس اب ان سے جنگ نہ کرو اور اگر تیار نہ ہوں تو اللہ کے بھروسہ پر ان سے جنگ کرو۔"(۱)
آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جنگوں میں لوٹ مار اور مُثلہ (۲) کرنے سے منع فرماتے تھے اور مال غنیمت میں خیانت (غُلول) سے بہت سختی سے روکتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یہ بھی فرماتے تھے : "مسلمانوں کا عہد و پیمان ایک ہی ہے، کوئی معمولی سے معمولی مسلمان بھی کسی سے عہد کر سکتا ہے" اور فرماتے کہ جو لوگ عہد توڑ دیتے ہیں (اور اس کا خیال نہیں رکھتے) دشمن کو ان پر غلبہ حاصل ہو جاتا ہے۔ (۳)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے غزوات کی تعداد ۲۷ ہے اور دوسری جنگی کاروائیوں اور مہموں کی تعداد جن میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بنفس نفیس شریک نہیں تھے، ۶۰ تک پہونچتی ہے، ان سب میں باقاعدہ جنگ کی نوبت نہیں آئی اور ان تمام غزوات و سرایا میں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حکم سے بھیجے گئے، جتنا خون بہایا گیا، دنیا جنگوں کی پوری تاریخ میں ہمیں اس سے کم کوئی مقدار نظر نہیں آتی، ان تمام غزوات کے مقتولین کی تعداد ایک ہزار اٹھارہ (۱۰۱۸) سے زیادہ نہیں، جس میں دونوں فریق
------------------------------
۱۔ مسلم شریف بروایت سلیمان بن بریدہ عن أبیہ مرفوعاً (طویل حدیث ہے)۔
۲۔ زخمی یا مقتول کے اعضاء کو کاٹنا یا اس کے جسم کو ٹکڑے ٹکڑے کرنا۔
۳۔ تلخیص از "زاد المعاد" ص ۲۹۲ - ۳۲۶ مع کچھ اضافوں کے۔