پھر اسی روز منٰی واپسی ہوئی، اور شب وہیں گذاری، دوسرے دن آپﷺ زوال آفتاب کا انتظار کرتے رہے، جب زوال کا وقت ہوگیا تو آپ ﷺ اپنی سواری سے اتر کر رمی جمار کے لئے تشریف لے گئے، جمرۂ اولیٰ سے آغاز فرمایا، اس کے بعد جمرۂ وسطٰی، اور جمرۂ عقبہ کے قریب جا کر رمی کی، منیٰ میں آپ ﷺ نے دو خطبے دئیے، ایک قربانی کے دن جس کا ذکر ابھی اوپر گذرا، دوسرا قربانی کے دوسرے روز۔
یہاں آپﷺ نے توقف فرمایا، اور ایام تشریق کے تینوں دن کی رمی مکمل کی، پھر مکہ کی طرف توجہ کیا، اور سحر کے وقت طواف وداع کیا، اور لوگوں کو تیاری کا حکم فرمایا، اور مدینہ کی طرف عناں کش ہوئے۔ ۱؎
جب آپ ﷺ غدیر خم پہونچے ۲؎ تو آپ ﷺ نے ایک خطبہ دیا، اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فضیلت بیان فرمائی، اس موقعہ پر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ:-
من کنت مولاہ فعلیٌّ مولاہٗ اللھم والِ مَن والاہٗ و عادِ مَن عَاداہ ۳؎
جس کو میں محبوب ہوں علی بھی اس کو محبوب ہونا چاہیئے، اے اللہ جو علی سے
------------------------------
۱؎ یہ حصہ ’’ زاد المعاد ‘‘ سے اختصار کے ساتھ لیا گیا ہے، ج ۱ ص١۸۰-۲۴۹، ان مباحث کو چھوڑ دیا گیا ہے، جن میں مصنف نے زیادہ توسع اور تفصیل لے کام لیا ہے، اسی طرح فقہاء و محدثین کے اختلافات بھی حذف کر دئیے گئے ہیں۔ ۲؎ غدیر خم، مکہ اور مدینہ کے درمیان ہے، حُجفہ اور اس میں دو میل کا فاصلہ ہے۔ ۳؎ بروایت امام احمد اور نسائی، اس خطبہ کے ارشاد فرمانے کا ایک خاص سبب یہ تھا کہ کچھ لوگوں نے حضرت علیؓ کی آپ ﷺ سے ( بے جا) شکایت کی تھی، اور ان کو آپ ﷺ سے کبید ہوگئی تھی، بعض ایسے لوگوں نے ان پر اعتراضات کئے تھے، جو یمن میں ان کے ساتھ تھے، اور حضرت علیؓ کے اس رویہ سے جو انصاف پر مبنی تھا، ان کو یہ غلط فہمی ہوئی تھی کہ اس میں جانب داری سے کام لیا گیا ہے ( ابن کثیر ج ۴ ص۴١۵-۴۱۶ )