یوم النحر کی حُرمت سے آگاہ کیا، اور اللہ تعالےٰ کے نزدیک اس دن کی جو فضیلت ہے اس کو بیان کیا، دوسرے تمام شہروں پر مکہ کی فضیلت و برتری کا ذکر کیا ، اور جو کتاب اللہ کی روشنی میں ان کی قیادت کرے، اس کی اطاعت و فرماںبرداری ان پر واجب قرار دی ،پھر آپؑ حاضرین سے کہا کہ وہ اپنے مناسک و اعمال حج آپؑ سے معلوم کر لیں آپؑ نے لوگوں کو یہ بھی تلقین فرمائ کہ دیکھو میرے بعد کافروں کی طرح نہ ہوجانا کہ ایک دوسرے کی گردن مارتے رہوََ۔۔۔۔ آپؑ نے یہ بھی حکم دیا کہ یہ سب باتیں دوسروں تک پہونچا دی جائیں،
اس خطبہ میں آپؑ نے یہ بھی ارشاد فرمایا:-
اُعبد واربکم وصلّوا خمسکم وصومو اشھر کم واطیعو اذاا مرکم تد خلو جنَّۃ ربکم
اپنے رب کی عبادت کرو، پانچ وقت کی نماز پڑھو، ایک مہینہ (رمضان) کا روزہ رکھو، اور اپنے اولی الامر کی اطاعت کرو، اپنے رب کی جنت میں داخل ہو جاو گے۔
اس وقت آپ ؑ نے لوگوں کے سامنے وداعیہ کلمات بھی کہے، اور اسی وجہ سے اس حج کا نام "حجۃ الوداع'' پڑا۔
پھر منیٰ میں "منحر" تشریف لے گئے، اور ترسٹھ(۶۳) اونٹ دست مبارک سے ذبح فرمائے، جتنے اونٹ آپؑ ذبح کئے، وہی تعداد عمر شریف کے سنین کی تھی، اتنی تعداد کے بعد آپؑ نے توقف کیا، اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے کہا کہ سو(۱۰۰) میں جتنے باقی ہیں، وہ پورے کریں غرض آپؑ جب قربانی مکمل کرلی، تو آپؑ نے حجام کو طلب فرمایا، اور حلق کروایا، اور اپنے موئے مبارک کے لوگوں میں تقسیم فرما دیئے، پھر مکہ روانہ ہوئے، طواف افاضہ کیا، جس کو طوافِ زیارت بھی کہتے ہیں، زمزم کے پاس تشریف لائے، کھڑے ہوکر پانی نوش فرمایا،