عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا ؕ ( سورۂ مائدہ -۳)
تم پر اپنی نعمت تمام کردی، اور تمہارے لئے اسلام کو بحیثیت دین انتخاب کر چکا۔
جب آفتاب غروب ہوگیا تو آپؐ عرفہ سے روانہ ہو گئے، اور اُسامہؓ بن زید کو اپنے پیچھے بٹھایا، آپؐ سکینت و وقار کے ساتھ آگے چلے، اونٹنی کی مہار آپؐ نے اس طرح سمیٹ لی تھی کہ قریب تھا کہ اس کا سر آپؐ کے کجاوہ سے لگ جائے، آپؐ کہتے جاتے تھے کہ لوگو! سکون و اطمینان کے ساتھ چلو، راستہ بھر آپؐ تلبیہ کرتے جاتے، اور جب تک مزدلفہ نہ پہونچ گئے، یہ سلسلہ جاری رہا، وہاں پہونچتے ہی آپؐ نے حضرت بلالؓ کو اذان کا حکم فرمایا، اذان دی گئی، آپؐ کھڑے ہوگئے، اور اونٹوں کو بٹھانے اور سامان اتارنے سے پہلے مغرب کی نماز ادا فرمائی، جب لوگوں نے سامان اتار لیا، تو آپؐ نے عشاء کی نماز بھی ادا فرمائی، پھر آپؐ آرام فرمانے لیٹ گئے، اور فجر تک سوئے۔
نماز فجر اول وقت ادا فرمائی، پھر سواری پر بیٹھے اور مشعر الحرام آئے اور قبلہ رو ہو کر دعاء و تضرُّع، تکبیر و تہلیل اور ذکر میں مشغول ہوگئے، یہاں تک کہ خوب روشنی پھیل گئی، یہ طلوع آفتاب سے پہلے کی بات ہے، پھر آپؐ مزدلفہ سے روانہ ہوئے، فضل بن عباس رضی اللّٰہ عنہ سواری پر آپؐ کے پیچھے تھے، آپؐ برابر تلبیہ میں مشغول رہے، آپؐ نے ابن عباسؓ کو حکم دیا کہ رمی جمار کے لئے سات کنکریاں چن لیں، جب آپؐ وادی مُحسَّر کے وسط میں پہونچے تو آپؐ نے اونٹنی کو تیز کر دیا اور بہت عجلت فرمائی، اس لئے کہ یہی وہ جگہ ہے، جہاں اصحاب فیل پر عذاب نازل ہوا تھا، یہاں تک کہ منیٰ پہونچے اور وہاں سے جمرۃ العقبہ تشریف لائے اور سواری پر طلوع آفتاب کے بعد رمی کی اور تلبیہ موقوف کیا۔
پھر منیٰ واپسی ہوئی، یہاں پہونچ کر آپؐ نے ایک بلیغ خطبہ دیا جس میں آپؐ نے