رمضان مبارک میں آپ نے اسفار بھی فرمائے ہیں، کبھی روزہ رکھا، کبھی نہ رکھا، اور صحابہ کرامؓ کو روزہ نہ رکھنے کا اختیار دیا، اگر جنگ سر پر ہوتی تو روزہ نہ رکھنے کا حکم دیتے تا کہ دشمن سے جنگ کرنے کی قوت رہے، رمضان ہی میں آپؐ نے سب سے عظیم اور فیصلہ کن غزوہ غزوۂ بدر، اور غزوۂ فتح مکّہ کا سفر کیا، نماز تراویح آپؐ نے تین۳ دن پڑھائی، شدہ شدہ بہت سے لوگوں تک خبر پہونچ گئی، اور مجمع کثیر اکٹھا ہوگیا، چوتھی رات میں مجمع اتنا ہو گیا کہ مسجد ناکافی ہوگئی، اس رات آپؐ گھر سے نماز فجر ہی کے لئے نکلے، اور نماز فجر کے بعد لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے، اور حمد و ثنا کے بعد فرمایا، میں تمہارے یہاں ( اس تعداد میں) موجود ہونے سے لا علم نہ تھا، لیکن مجھے اس کا خوف ہوا کہ کہیں یہ (نفل نماز تراویح) تم پر فرض نہ کر دی جائے، اور پھر تم سے نبھ نہ سکے، پھر رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات تک بات یہیں تک رہی ۱، آپؐ کے بعد صحابۂ کرامؓ نے تراویح کا اہتمام کیا، یہاں تک کہ وہ اہل سنت کا شعار بن گئی ۲۔
رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم بکثرت نفل روزے رکھتے تھے، اور ترک بھی فرماتے تھے، رکھتے تو خیال ہوتا کہ رکھتے ہی رہیں گے، اور چھوڑتے تو خیال ہوتا کہ اب نہیں رکھیں گے، لیکن رمضان کے علاوہ کسی مہینہ کے پورے روزے نہیں رکھے، اور شعبان میں جتنے روزے رکھتے تھے، اتنے کسی مہینہ میں نہیں رکھتے تھے، دو شنبہ اور جمعرات کے روزہ کا خاص اہتمام فرماتے تھے، حضرت عبداللّٰہ بن عباس رضی اللّٰہ عنہ کہتے ہیں کہ " رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم
------------------------------
۱ بخاری شریف:"باب فضل من قام رمضان" ۲ تراویح، اس کے آغاز اور حضرت عمر بن الخطاب رضی اللّٰہ عنہ نے جس طرح اس کو منظم طریقہ پر باجماعت ادا کرنے کا اہتمام فرمایا، اور اس کی رکعتوں کی تعداد وغیرہ کے سلسلہ میں کتب شروح حدیث اور کتب فقہ کا مطالعہ کیجئے۔