اور احکام کی تعلیم دیتے، اور ضرورت کے مطابق کسی چیز سے روکتے، کسی چیز کا حکم فرماتے تھے، ہاتھ میں تلوار وغیرہ نہیں لیتے تھے، ہاں منبر بننے سے پہلے کمان یا عصا پر ٹیک لگاتے تھے، کھڑے ہو کر خطبہ دیتے پھر تھوڑی دیر کے لئے بیٹھتے، پھر کھڑے ہو کر دوسرا خطبہ دیتے تھے ، فارغ ہوتے ہی حضرت بلالؓ اقامت شروع کر دیتے تھے۔
عید اور بقر عید کی نمازیں عید گاہ میں پڑھتے تھے، صرف ایک مرتبہ بارش کی وجہ سے اپنی مسجد میں عید کی نماز ادا فرمائی، عیدین کے دن خوبصورت پوشاک زیب تن فرماتے تھے، عید کے دن عید گاہ جانے سے پہلے طاق عدد کھجوریں نوش فرماتے تھے، اور بقر عید کے دن عید گاہ سے واپسی سے پہلےکچھ تناول نہیں فرماتے تھے، واپس آ کر ہی قربانی کا گوشت تناول فرماتے، عیدین کے لئے غسل فرماتے تھے، اور عیدگاہ پہونچتے ہی اذان و اقامت کے بغیر نماز شروع فرما دیتے، عیدگاہ میں آپ (صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم ) اور آپ کے صحابہ کرام نہ نماز عید سے پہلے کوئی نماز پڑھتے اور نہ نماز عید کے بعد، خطبہ سے پہلے دوگانہ عید ادا کرتے اور تکبیرات میں اضافہ فرماتے ۱، جب نماز مکمل فرما لیتے تو لوگوں کی طرف رخ کر کے کھڑے ہو جاتے، اس حال میں کہ لوگ بیٹھے ہوتے، اور پھر وعظ و نصیحت فرماتے، کوئی حکم دینا ہوتا تو حکم دیتے، کسی امر سے روکنا ہوتا تو اس سے روکتے، کوئی وفد یا لشکر بھیجنا ہوتا تو بھیجتے، یا جیسی ضرورت ہوتی ویسا کرتے، پھر خواتین کے پاس آ کر ان کو وعظ و نصیحت فرماتے، خواتین بکثرت صدقات و خیرات کرتیں، عید و بقر عید کے خطبوں میں کثرت سے تکبیر کے الفاظ دہراتے، عید کے دن ایک راستہ سے آتے اور دوسرے راستہ سے جاتے۔
------------------------------
۱ زائد تکبیریں کتنی ہوں اس سلسلہ میں فقہاء کا کیا اختلاف ہے؟ اس کی تفصیل کے لئے کتب فقہ و حدیث دیکھئے ۔