ظہور یا بڑی مصیبت ٹل جانے کے موقعہ پر سجدۂ شکر بجا لاتے تھے، اور قرآن میں اگر آیت سجدہ کی تلاوت فرماتے یا سنتے تو اللّٰہ اکبر کہہ کر سجدہ میں چلے جاتے۔
جمعہ کی بڑی تعظیم و احترام فرماتے اور اس میں کچھ ایسی عبادتیں فرماتے جو اور دنوں میں نہ فرماتے، جمعہ کے غسل، اور عطر لگانے اور نماز کے لئے جلدی جانے کو آپ نے مسنون قرار دیا ہے، اس دن سورۂ کہف کی تلاوت کا اہتمام فرماتے تھے، حسب استطاعت اچھے کپڑے پہنتے تھے، امام احمدؒ بروایت حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللّٰہ تعالی عنہ اپنی "مسند" میں نقل کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ "جمعہ کے دن غسل کرے اور عطر -- اگر اس کے پاس ہو------- لگائے ، اور حسب استطاعت اچھے کپڑے پہنے پھر سکون و وقار کے ساتھ مسجد جائے، پھر اگر چاہے تو نوافل پڑھے، اور کسی کو تکلیف نہ دے، اور پھر جب امام منبر پر آ جائے اس وقت سے نماز کے اختتام تک خاموش رہے، ( اور توجہ سے خطبہ سنے)( اگر ایسا کرے گا) تو ایک جمعہ سے دوسرے جمعہ تک کے گناہوں کے لئے کفارہ ہو گا" جمعہ کے دن ایک قبولیت کی گھڑی ہے، صحیحین میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللّٰہ عنہ کی روایت ہے کہ ؛" جمعہ کے دن ایک ایسی ساعت ہے کہ اگر کوئی مسلمان بندہ اس کر اس حال میں پالے کہ وہ کھڑا ہوا نماز پڑھ رہا ہو، اور اللّٰہ سے سوال کر رہا ہو، تو اللّٰہ تعالیٰ اس کو ضرور عنایت فرمائے گا"، اس ساعت کی تعیین میں علماء کا اختلاف ہے، راحج قول یہی ہے کہ وہ عصر کے بعد کی ایک ساعت ہے، امام احمدؒ اور جمہور صحابہ و تابعین کا یہی مسلک ہے۔
جمعہ میں خطبہ مختصر دیتے اور نماز طویل پڑھتے تھے، اور ذکر کی کثرت کرتے تھے، اور جامع و مانع الفاظ ارشاد فرماتے تھے، خطبہ میں صحابہ کرام کو اسلام کے اصول و قواعد